بیعت المعمور اور سدرہ المنتہیٰ میں کیا فرق ہے؟
بیت المعمور آسمان پر کعبۃ اللہ کے عین برابر ہے یہ فرشتوں کا وہ کعبہ ہے جس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے عبادت اور طواف کے لیے آتے ہیں اور ایک دفعہ طواف کے بعد ان کو قیامت تک دوبارہ موقع نہیں ملے گا۔ ہر روز نئے ستر ہزار فرشتے آتے ہیں۔
سِدرہ لغت میں بیری کے درخت کو کہتے ہیں، اور مُنتہیٰ کے معنی انتہاء کی جگہ ، ساتویں آسمان پر عرش رحمٰن کے نیچے بیری کا درخت ہے،منتہی کہنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ زمین سے اوپر جانے والی چیزیں اور اوپر سے نیچے آنے والی چیزیں اس تک آ کر رک جاتی ہیں اس لئے اسے سدرۃُ المنتہیٰ کہتے ہیں ۔
سدرۃ المنتہی کی تفسیر میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ فرماتے ہیں:
’’سِدرہ لغت میں بیری کے درخت کو کہتے ہیں، اور مُنتہیٰ کے معنی انتہاء کی جگہ ، ساتویں آسمان پر عرش رحمٰن کے نیچے بیری کا درخت ہے، مسلم کی روایت میں اس کو چھٹے آسمان پر بتلایا ہے، اور دونوں رایتوں کی تطبیق اس طرح ہوسکتی ہے کہ اس کی جڑ چھٹے آسمان پر اور شاخیں ساتوں آسمان پر پھیلی ہوئی ہیں(قرطبی) اور عام فرشتوں کی رسائی کی یہ آخری جگہ ہے، اسی لیے اس کو منتہیٰ کہتے ہیں، بعض روایات میں ہے احکامِ الٰہیہ اول عرشِ رحمٰن سے سدرۃ المنتہیٰ پر نازل ہوتے ہیں، یہاں سے متعلقۃ فرشتوں کے سپرد ہوتے ہیں،اور زمین سے آسمان جانے والے اعمال نامے وغیرہ بھی فرشتے یہیں تک پہونچاتے ہیں،وہاں سے حق تعالیٰ کے سامنے پیشی کی اور کوئی صورت ہوتی ہے، مسند احمد میں یہ مضمون حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے۔(ابن کثیر)"
(معارف القرآن، جلد ہشتم،ص:200،مکتبۃ معارف القرآن کراچی)
تفسیر بغوی میں ہے:
"{والبيت المعمور} بكثرة الغاشية والأهل، وهو بيت في السماء حذاء العرش بحيال الكعبة يقال له: الضراح، حرمته في السماء كحرمة الكعبة في الأرض، يدخله كل يوم سبعون ألفا من الملائكة يطوفون به ويصلون فيه ثم لا يعودون إليه أبدا."
(سورة الطور، ج:7، ص: 382، ط:دار طيبة للنشر والتوزيع)
تفسیر قرطبی میں ہے:
"والسدر شجر النبق وهي في السماء السادسة، وجاء في السماء السابعة. والحديث بهذا في صحيح مسلم، الأول ما رواه مرة عن عبد الله قال: لما أسري برسول الله صلى الله عليه وسلم انتهي به إلى سدرة المنتهى، وهي في السماء السادسة، إليها ينتهي ما يعرج به من الأرض فيقبض منها، وإليها ينتهي ما يهبط به من فوقها فيقبض منها."
(سورة الجم،ج: 17، ص: 94، ط:دار الكتب المصرية - القاهرة)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144511101418
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن