بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

بیت اللہ شریف کے غلاف سے دھاگے نکالنے کا حکم


سوال

بيت اللہ شریف کے غلاف سے لپٹ کر ،تبرک کے  لیے اس کے دھاگے نکالنے کا کیا حکم ہے ؟آیا یہ جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

 بیت اللہ شریف  کے غلاف سے لپٹنااور اس کو چومنا بطور ِتبرک کے  جائز ہے،تبرک کے لیےاس کے دھاگے نکالنا  ناجائز ہے، کیوں کہ یہ وقف کا مال  ہے ، بلااذنِ  واقف ومتولی اس کے لینے کا  کسی کو حق نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"و قبل العتبة) تعظيمًا للكعبة (و وضع صدره و وجهه على الملتزم و تشبث بالأستار ساعة) كالمستشفع بها ... الدر ..."

"قوله: و قبل العتبة) أي ثم قبل العتبة المرتفعة عن الأرض قهستاني (قوله: و وضع) أي ثم وضع قهستاني (قوله: و وجهه) أي خده الأيمن و يرفع يده اليمنى إلى عتبة الباب (قوله: و تشبث) أي تعلق كما يتعلق عبد ذليل بطرف ثوب لمولى جليل قهستاني (قوله: و دعا) أي حال تشبثه بالأستار متضرعًا متخشعًا مكبرًا مهللًا مصليًا على النبي صلى الله عليه وسلم."

(کتاب الحج ، مطلب في طواف الزيارة ، ج : 2 ، ص : 524 ، ط : دارالفکر)

البحر الرائق ميں ہے :

"والتزم الملتزم وتشبث بالأستار والتصق بالجدار) بيان للمستحب ... و التشبث التعلق والمراد بالأستار ‌أستار ‌الكعبة إن كانت قريبة بحيث ينالها، و إلا وضع يديه فوق رأسه مبسوطتين على الجدار قائمتين."

(كتاب الحج ، باب الاحرام ، ج : 2 ، ص : 378 ، ط : دار  الكتاب الإسلامي)

النتف فی الفتاوی میں ہے :

"و الرابع لايجوز أن يأخذ من ‌كسوة ‌الكعبة شيئًا فإن أخذه رده إليها و أما ما سقط منها فيعطى الفقراء و لا بأس بعد ذلك أن يشتري منهم أو يقبله هدية."

(‌‌كتاب المناسك ‌‌، مالا يجوز للمحرم فعله ، ج : 1 ، ص : 222 ، ط : مؤسسة الرسالة )

مناسک ملاعلی قاری ؒ میں ہے :

" لکن في البحر الزاخر: أنه لایجوز قطع شیئ من کسوۃ الکعبة ولانقله ولابیعه ولاشراؤہ ولاوضعه في اوراق المصحف،ومن حمل شیئاً من ذلك، فعلیه ردہ..."

(باب المتفرقات ، ص : 495 ، 496 ، ط : ادارۃ القرآن کراچی)

امداد الفتاوی میں ہے :

"غلافِ کعبہ زاد ہا اللہ تنویرا ًکے تبرک ہونے اور اس کی تقبیل تبرک کے جواز میں تو کوئی کلام نہیں ، اگر بوسہ دینے میں صرف اسی قدر اعتقاد ہواور کسی کو ایذا بھی نہ ہوتو کچھ مضائقہ نہیں، موجب ِثواب وبرکت ہے۔"

(کتاب البدعات  ، ج : 5 ، ص :287  ، مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144511101256

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں