بيت اللہ شریف کے غلاف سے لپٹ کر ،تبرک کے لیے اس کے دھاگے نکالنے کا کیا حکم ہے ؟آیا یہ جائز ہے یا نہیں ؟
بیت اللہ شریف کے غلاف سے لپٹنااور اس کو چومنا بطور ِتبرک کے جائز ہے،تبرک کے لیےاس کے دھاگے نکالنا ناجائز ہے، کیوں کہ یہ وقف کا مال ہے ، بلااذنِ واقف ومتولی اس کے لینے کا کسی کو حق نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے :
"و قبل العتبة) تعظيمًا للكعبة (و وضع صدره و وجهه على الملتزم و تشبث بالأستار ساعة) كالمستشفع بها ... الدر ..."
"قوله: و قبل العتبة) أي ثم قبل العتبة المرتفعة عن الأرض قهستاني (قوله: و وضع) أي ثم وضع قهستاني (قوله: و وجهه) أي خده الأيمن و يرفع يده اليمنى إلى عتبة الباب (قوله: و تشبث) أي تعلق كما يتعلق عبد ذليل بطرف ثوب لمولى جليل قهستاني (قوله: و دعا) أي حال تشبثه بالأستار متضرعًا متخشعًا مكبرًا مهللًا مصليًا على النبي صلى الله عليه وسلم."
(کتاب الحج ، مطلب في طواف الزيارة ، ج : 2 ، ص : 524 ، ط : دارالفکر)
البحر الرائق ميں ہے :
"والتزم الملتزم وتشبث بالأستار والتصق بالجدار) بيان للمستحب ... و التشبث التعلق والمراد بالأستار أستار الكعبة إن كانت قريبة بحيث ينالها، و إلا وضع يديه فوق رأسه مبسوطتين على الجدار قائمتين."
(كتاب الحج ، باب الاحرام ، ج : 2 ، ص : 378 ، ط : دار الكتاب الإسلامي)
النتف فی الفتاوی میں ہے :
"و الرابع لايجوز أن يأخذ من كسوة الكعبة شيئًا فإن أخذه رده إليها و أما ما سقط منها فيعطى الفقراء و لا بأس بعد ذلك أن يشتري منهم أو يقبله هدية."
(كتاب المناسك ، مالا يجوز للمحرم فعله ، ج : 1 ، ص : 222 ، ط : مؤسسة الرسالة )
مناسک ملاعلی قاری ؒ میں ہے :
" لکن في البحر الزاخر: أنه لایجوز قطع شیئ من کسوۃ الکعبة ولانقله ولابیعه ولاشراؤہ ولاوضعه في اوراق المصحف،ومن حمل شیئاً من ذلك، فعلیه ردہ..."
(باب المتفرقات ، ص : 495 ، 496 ، ط : ادارۃ القرآن کراچی)
امداد الفتاوی میں ہے :
"غلافِ کعبہ زاد ہا اللہ تنویرا ًکے تبرک ہونے اور اس کی تقبیل تبرک کے جواز میں تو کوئی کلام نہیں ، اگر بوسہ دینے میں صرف اسی قدر اعتقاد ہواور کسی کو ایذا بھی نہ ہوتو کچھ مضائقہ نہیں، موجب ِثواب وبرکت ہے۔"
(کتاب البدعات ، ج : 5 ، ص :287 ، مکتبہ دار العلوم کراچی)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144511101256
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن