بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بیٹیوں کو دے کر بیٹوں کو محروم کرنا


سوال

میرے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، شروع میں ہمارے پاس کچھ نہیں ہوتا تھا، میں نے محنت مشقت کر کے کمایا اور اپنے آپ کو سیٹ کر لیا، لیکن میرے دو بیٹے میرے ساتھ انتہائی بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہیں، بلیک میل کرتے ہیں، گالی بکتے ہیں کہ ہمیں حصہ دو ،یعنی میری ذاتی جائیداد میں سے حصہ مانگتے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ اپنی زندگی میں اپنی ایک فیکٹری اپنی ایک بیٹی کو دے دوں، جو طلاق یافتہ ہے اور یہ فیکٹری قانونی حساب سے اس کے نام کر دی ہے تو کیا میرے لیے ایسا کرنا جائز ہے؟ اور باقی دو بیٹیوں کے لیے اپنی جائیداد میں سے الگ گفٹ کرنے کا ارادہ ہے، تینوں بیٹیوں کو جو چیزیں دے رہا ہوں، تینوں کی مالیت تقریباً برابر ہے۔

مجھے بیٹوں کو کچھ نہیں دینا، کیوں کہ وہ بہت نافرمان ہیں، کیا ایسا کرنا درست ہے؟

جواب

حدیث شریف میں آتا ہے کہ (ایک دن )  حضرت نعمان بن بشیر  رضی اللہ عنہ   کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا:  ”نہیں“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔(مظاہر حق، باب العطایا،  3/ 393،  ط: دارالاشاعت)

نیز حدیث شریف میں آتا ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی  میراث کاٹے گا، (یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔

ان احادیث سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں، پہلی بات یہ کہ اگر کوئی شخص اپنی اولاد میں سے بعض کو کچھ دیتا ہے تو اس پر ضروری ہے کہ بقیہ اولاد کو بھی کچھ  دے، اور اولاد کے درمیان برابری کرے، اولاد میں سے بعض کو دے کر دوسرے بعض کو بالکل محروم کرنا جائز نہیں، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اپنے وارث (مثلاً بیٹے) کو اس کے میراث کے شرعی حق سے محروم کرنا بھی سخت گناہ کا کام ہے۔

نیز واضح رہے کہ ہر انسان اپنی زندگی میں اپنی ذاتی املاک کا خود مالک ہوتا ہے، اس میں کسی کو کسی قسم کے مطالبہ کا کوئی حق نہیں ہوتا، لہذا آپ کے بیٹے اگر آپ سے بد سلوکی کرتے ہوئے حصہ مانگتے ہیں تو ان کا یہ عمل بالکل درست نہیں، ان کو ایسا کرنے سے باز رہنا چاہیے۔

پھر  اگر آپ اپنی ساری جائیداد اپنی بیٹیوں کو دینا چاہتے ہیں اور بیٹوں کو بالکل کچھ نہ دینے کا ارادہ ہے تو ایسا کرنا درست نہیں، ایسا کرنے کی وجہ سے آپ گناہ گار ہوں گے، ایسا ہو سکتا ہے کہ بیٹیوں کو  کسی معقول وجہ کی بنا پر  بیٹوں کی بنسبت   کچھ زیادہ  دےدیں،  یعنی بیٹیوں کی شرافت و دِین داری یا غریب ہونے کی بنا پر  یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر اُن کو  بیٹوں کی بنسبت کچھ زیادہ دیں تو اس کی اجازت ہے، لیکن ساری جائیداد بیٹیوں کو دے کر بیٹوں کو مکمل محروم کرنا شرعاً درست عمل نہیں۔

انسان کو چاہیے کہ اپنے وقتی جذبات کو شریعت کے احکام پر مقدم نہ رکھے، بلکہ شریعت کے احکام کو اپنے جذبات اور چاہتوں پر مقدم رکھے، اسی میں خیر ہوتی ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"و عن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» و في رواية ...... قال : «فاتقوا الله و اعدلوا بين أولادكم»".

(مشکاۃ  المصابیح، باب العطایا،  1/ 261، ط: قدیمی)

مشکوۃ المصابیح میں ہے:

"عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ‌قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة . رواه ابن ماجه."

(مشکوۃ المصابیح، ج: 2، کتاب الفرائض،  باب الوصایا، الفصل الثالث، ص: 926، ط: المکتب الاسلامی)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد ‌تفضيل ‌البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى."

(کتاب الوقف، مطلب متى ذكر الواقف شرطين متعارضين يعمل بالمتأخر، 444/4 ، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610101476

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں