بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 ذو الحجة 1445ھ 02 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

بجاج فائناس کا حکم


سوال

بجاج فاینانس کا کیا حکم ہے؟

جواب

ہمیں   دست یاب  معلومات کے مطابق بجاج فائننس اپنے صارف کے ساتھ ’’حوالہ‘‘ والا معاملہ کرتا ہے، یعنی اپنے صارف کی طرف سے اس کا قرضہ ادا کردیتا ہے اور پھر بعد میں قسطوں میں اپنے صارف سے وصول کرلیتا ہے،  اس معاملہ میں بجاج فائنانس کمپنی  دکاندار کوتو نقد قیمت اداکردیتی ہے اور  خریدار سے قسط وار وصول کرتی ہے اور اس میں یہ شرط ہوتی ہے کہ بر وقت قسط کی ادئیگی نہ کرنے کی صورت میں   خریدار کوجرمانہ دیناپڑے گا   وغیرہ ۔جب کہ یہ شرط شرعاجائز نہیں ہے ۔

ایک اس وجہ سے کہ اس میں تعزیر  بالمال (مالی جرمانہ)ہے جوکہ شرعًا  جائزنہیں ہے۔

دوسرا اس وجہ سے کہ اس میں انجام اور نتیجہ کے اعتبار سے ایک سودی معاملہ ہے؛ کیوں کہ جورقم جرمانہ  کی صورت میں لی جائے گی وہ اصل  خریدار کی طرف سے اد اکردہ رقم سے زائد ہوگی  جوکہ  سود ہے ، اب  چوں کہ اس معاملہ کی ابتدا  ہی میں یہ شرط لگادی جاتی ہے؛  اس لیے اگرچہ  خریدار کویقین ہوکہ بروقت قسطوں کواد کردے گا لیکن   معاملہ کے شروع ہی میں سودی شرط ہے اور قرض کی ادئیگی کی ذمہ داری بھی اسی شرط کے ساتھ  لی جاتی ہے  تو چوں کہ یہ سود  کی شرط کے ساتھ قرض کالین دین ہے   اور سود کی شرط کے ساتھ قرض کالین دین حرام ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان (قوله: وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.

وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ.

(کتاب الحدود ، باب التعزیر،مطلب فی التعزیر باخذالمال، ج:4،ص:61،ط:سعید)

النهرالفائق میں ہے:

وفي (البزازية) وتعليق القرض حرام والشرط لا يلزم انتهى، وهو محمول على ما لو علقه بشرط فيه منفعة للمقرض."

(باب المتفرقات،ج:3،ص:526،ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200722

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں