ہمارے محلہ کی مسجد کے پچھلے حصہ (پہلی منزل) میں کئی سالوں تک معتکفین حضرات بلا تردد افطار وغیرہ کےلیے آتے جاتے رہے، اس وقت تک موجود علماء، امامِ مسجد اور مسجد انتظامیہ نے کبھی اس حصہ کو غیر مسجد شمار نہیں کیا، بلکہ اعتکاف کے شروع میں حدودِ مسجد بتائی جاتی تھیں، اس میں اس جگہ کو مسجد کا ہی حصہ بتایا جاتا رہا، گذشتہ سال ایک عالم نے یہ مسئلہ بتایا ہے کہ جو جگہ مسجد میں شامل ہو اور اس کی سیڑھیاں مسجد سے باہر ہوں تو وہ جگہ مسجد کی حدود سے باہر ہوتی ہے، او اس پراحکامِ مسجد لاگو نہیں ہوتے، اب معلوم یہ کرنا ہے کہ:
(۱) کیا وہ حصہ مسجد ہی شمار ہوگا؟ یا غیر مسجد شمار ہوگا؟
(۲) ایسی صورت میں معتکفین کے لیے وہاں جانا کیسا ہے؟
(۳) پچھلے سالوں میں جو معتکفین وہاں جاتے رہے، تو کیا ان سب کے اعتکاف ٹوٹ گئے تھے؟ اور ایسی صورت میں ان تمام معتکفین کو کیسے معلوم ہوگا کہ ا ن پر قضا لازم ہے؟ کیا مسجد کی انتظامیہ اس بات کی ذمہ دار ہے کہ وہ اس غلطی کا عام اعلان کرے؟
واضح رہے کہ مسجد بنانے والے، مسجد کے متولی یا منتظمین کی طرف سے جس حصہ کو مسجد کے طور پر متعین کردیں وہ حصہ شرعی مسجد بن جائے گی، وہاں کا راستہ مسجد سے باہر ہونے سے مسجد کے مسجد ہونے میں فرق نہیں پڑتا،اور اعتکاف میں اگر بالائی منزل کا راستہ مسجد سے باہر سے ہوکر اوپر جائےہو تو اس ایسی ہو تو بلا ضرورت اس راستے پر سیڑھیوں پر جانے سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
(۱) صورتِ مسئولہ میں مذکورہ مسجد کی بالائی منزل اگر متولیوں کی طرف سے مسجد کے لیے متعین کردی گئی ہے تو وہ بہر حال مسجد ہے، راستہ مسجد کی حدود سے باہر ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
(۲) اوپر جانے کاراستہ اگر شرعی مسجد کی حدود سے باہر سے ہو کر اوپر جائے تو ان سیڑھیوں سے دوسری منزل سے اوپر نیچے جانے سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
(۳) جو معتکفین اعتکاف کے دوران مذکورہ سیڑھیوں سے اوپر نیچے آتےجاتے رہے ان کا اعتکاف ٹوٹ چکا تھا، ان ایک کے بدلے ایک دن کے اعتکاف کی قضا روزےکے ساتھ لازم ہے، چاہے قضاء رمضان میں کریں یا غیر رمضان میں، ایک مغرب سے اگلی مغرب تک قضاء کی نیت سے اعتکاف کر لیں۔
مسجد کی انتظامیہ پر لازم ہے کہ مسئلہ بیان کر دے، اور جو لوگ معلوم ہوں ان کو انفرادی بھی اطلاع دی جائے کہ وہ ایک دن کے اعتکاف کی قضا ء کر لیں۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(وحرم عليه) أي على المعتكف اعتكافا واجبا أما النفل فله الخروج.......(الخروج إلا لحاجة الإنسان).......(فلو خرج) ولو ناسيا (ساعة) زمانية لا رملية كما مر (بلا عذر فسد) فيقضيه."
(کتاب الصلاة، باب الاعتكاف، ج:2، ص:444، ط:سعيد)
وفیه أيضا:
"والحاصل أن الوجه يقتضي لزوم كل يوم شرع فيه عند هما بناء على لزوم صومه بخلاف الباقي لأن كل يوم بمنزلة شفع من النافلة الرباعية وإن كان المسنون هو اعتكاف العشر بتمامه تأمل."
(کتاب الصلاۃ، باب الاعتکاف، ج:2، ص:445، ط:سعید)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144608100735
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن