بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

بالغ مرد کے ہوتے ہوئے نابالغ کی اذان کا حکم


سوال

مسجد میں بالغ مرد کےہوتےہوئےنابالغ بچہ اذان دےدے،تو  کیا ایساکرنا جائز ہے؟

جواب

افضل یہ ہے کہ اذان  بالغ مرد  ہی دے، البتہ ایسالڑکا جو بلوغت کے قریب ہو وہ بھی اذان دے سکتا ہے،لیکن نابالغ ناسمجھ بچے کا اذان دینا مکروہ ہے،لہذاصورتِ مسئولہ میں اگر مسجد میں بالغ مردہوتے ہوئےکسی ایسےنابالغ بچےنےاذان دےدی جو بلوغت کےقریب ہو،سمجھ دار ہوتو ایسےنابالغ کی اذان دینے میں کوئی حرج نہیں ہے،لیکن اگربچہ ناسمجھ ہےاس کا اذان دینا مکروہ ہےاوراس اذان کو لوٹایاجائےگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويجوز) بلا كراهة (أذان صبي مراهق).

(قوله: بلا كراهة) أي تحريمية؛ لأن التنزيهية ثابتة؛ لما في البحر عن الخلاصة: أن غيرهم أولى منهم. اهـ. ح.أقول: وقدمنا أول كتاب الطهارة الكلام في أن خلاف الأولى مكروه أولا فراجعه.(قوله: صبي مراهق) المراد به العاقل وإن لم يراهق، كما هو ظاهر البحر وغيره، وقيل: يكره لكنه خلاف ظاهر الرواية، كما في الإمداد وغيره، وعلى هذا يصح تقريره في وظيفة الأذان، بحر."

(کتاب الصلاۃ،باب الاذان،391/1،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أذان الصبي العاقل صحيح من غير كراهة في ظاهر الرواية ولكن أذان البالغ أفضل وأذان الصبي الذي لايعقل لايجوز، ويعاد وكذا المجنون. هكذا في النهاية."

(کتاب الصلاۃ،الباب الثانی فی الاذان،54/1،ط:رشیدیہ)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"عنوان:نابالغ کی اذان کیاواجب الاعادہ ہے؟

سوال:نابالغ لڑکےکی اذان کا کیاحکم ہے؟

جواب:اگرلڑکاسمجھ دارہےتواس کی اذان صحیح ہے،لیکن بالغ کی اذان افضل ہے،اگرناسمجھ ہےاوراس نےاذان دی ہے تو وہ صحیح نہیں دوبارہ اذان دی جائے۔"

(کتاب الصلاۃ،باب الاذان،450/5،ط:جامعہ فاروقیہ کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100213

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں