بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

بالغہ لڑکی کو اس کے مرضی کے خلاف نکاح پر مجبور کرنا


سوال

 ایک شخص اپنی بیٹی کا نکاح اپنے بھانجے کے ساتھ کرنا چاہتا ہے اور لڑکی والد کے بھانجے کے ساتھ نکاح پر راضی نہیں ہے ۔

1 : کیا بالغہ لڑکی کو اس کی مرضی کے خلاف نکاح کرنے پر مجبور کرنا ٹھیک ہے ؟

2 : کیا بالغہ لڑکی سے اس کے نکاح کی اجازت لینا ضروری ہے ؟ اگر وہ واضح انکار کرے تو نکاح کا کیا حکم ہے ؟ 

جواب

1۔اگر لڑکی اپنے والد کے بھانجے کے ساتھ نکاح کرنے پر راضی نہیں ہے جب کہ وہ  بالغہ ہے تو شرعًا والد کا اپنی بیٹی کو اپنے بھانجے کے ساتھ نکاح پر  مجبور کرنا جائز نہیں ہے،والد کو چاہیےکہ جبر و اکراہ کے بغیر بیٹی کو سمجھانے کی کوشش کرے، بیٹی کو بھی چاہیے کہ والد  کی رائے کا احترام کرتے ہوئے،  ان کی بات کوسمجھنے کی کوشش کرے۔

2۔بالغہ لڑکی سے اس کے نکاح کی اجازت لینا شرعًا ضروری ہے ۔اگر وہ کسی شخص سے نکاح  پر راضی نہیں ہے تو اس کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح کردینے سے شرعًا نکاح منعقد نہیں ہوگا۔

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(ولا تجبر البالغة البكر على النكاح) لانقطاع الولاية بالبلوغ (فإن استأذنها هو) أي الولي وهو السنة (أو وكيله أو رسوله أو زوجها) وليها وأخبرها رسوله أو الفضولي عدل (فسكتت) عن رده مختارة (أو ضحكت غير مستهزئة أو تبسمت أو بكت بلا صوت) فلو بصوت لم يكن إذنا ولا ردا حتى لو رضيت بعده انعقد سراج وغيره، فما في الوقاية والملتقى فيه نظر (فهو إذن).

(قوله: فهو إذن) أي وإن لم تعلم أنه إذن كما في الفتح."

(کتاب النکاح،باب الولی،ج3،ص58۔59،ط؛سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511100588

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں