ہمارے بعض علاقوں میں رواج ہے کہ بالغہ لڑکی سے پوچھے بغیر اس کا نکاح کرایا جاتا ہے اور اگر بالفرض لڑکی سے پوچھا بھی جائے،تو اس کی رضامندی اور عدم رضامندی کا نہ نکاح سے پہلے کوئی اعتبار ہوتا ہے اور نہ نکاح کے بعد لڑکی کے اختیار میں کچھ ہوتا ہے بلکہ ہوتا وہی ہے،جو اس کے گھر والے چاہتے ہیں،لڑکی راضی ہو یا نہ ہو،مذکورہ رواج کے مطابق ایک بالغہ لڑکی کے رشتہ سے انکار کے باوجود اس کے گھر والوں نے جبراً اس کا نکاح کروایا ہو اور لڑکی اس رشتہ کو قبول کرنے سے منکر ہو اور آخر تک رضامند نہ ہواور نہ ہی دستخط کیے ہو،تو کیا اس طرح کرنے سے یہ نکاح منعقد ہوگا اور اس لڑکی کی رضامندی کے بغیر اس کی رخصتی درست ہوگی؟
واضح رہے کہ شریعت مطہرہ نکاح کے معاملہ میں عاقلہ بالغہ لڑکی کے ولی کو اس بات کا حکم دیتی ہے کہ اس کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر نہ کرائے ، بلکہ اس کے نکاح کے لیے اس کی اجازت اور رضامندی حاصل کرے ، اگر لڑکی نکاح پر راضی نہ ہو تو ولی کے لیے اس کا زبردستی نکاح کرنا جائز نہیں ہے،ولی کو چاہیے کہ رشتہ کرنے سے پہلے اپنی بچی سے اس کی خوشی اور دل کی بات معلوم کرے،تا کہ اس کی زندگی میں کسی قسم کی کوئی بھی پریشانی نہ ہو اور اگر لڑکے میں شرعاً کوئی خرابی موجود ہو،تو خواہ مخواہ خاندان یا رواج کی وجہ سے اپنی بچی کی زندگی خراب نہ کرے،بچی کو بھی چاہیئے کہ والدین کی خوشی کا لحاظ رکھے،اگر لڑکے میں شرعاً کوئی خرابی نہ ہو،تو پھر والدین کی رضامندی کا لحاظ رکھتے ہوئے اس رشتے کو قبول کرے،کیوں کہ والدین کا کیا ہوا رشتہ بعد میں عموماً سکون کا ذریعہ بنتا ہے، اور والدین کی اجازت کے بغیر یا ان کی ناراضگی میں کیا ہوا رشتہ عموماً ناپائیدار ہوتا ہے،جس سے بعد میں اور مصبیت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں جس رواج کا ذکر کیا گیاہے،سخت ناپسندیدہ رواج ہے،شریعت اس سے سختی سے منع کرتی ہے،اگر واقعتاً بالغہ لڑکی کا نکاح اس کی رضامندی کے بغیر کیا گیا ہو اورلڑکی اس رشتہ کو قبول کرنے سے انکار کرتی ہو اور آخر تک رضامند نہ ہواور نہ ہی دستخط کیے ہوں،تو یہ نکاح ہی منعقد نہیں ہوا،لہذارخصتی کرنا بھی درست نہیں ہوگا۔
(ولا تنكح البكر) أي البالغة (حتى تستأذن) أي: يطلب منها الإذن لقوله: وإذنها صماتها، وقيل: الاستئذان الإعلام وهذا لإطلاقه حجة لأبي حنيفة في عدم تجويزه إجبار البكر البالغة (قالوا: يا رسول الله وكيف إذنها) أي: البكر وهي كثيرة الحياء (قال: أن تسكت) أي: إذنها سكوتها اختلف في أن السكوت من البكر يقوم مقام الإذن في حق جميع الأولياء أو في حق الأب والجد دون غيرهما، وإلى الأول ذهب الأكثر لظاهر الحديث (متفق عليه) قال القاضي: " وظاهر الحديث يدل على أنه ليس للمولى أن يزوج موليته من غير استئذان ومراجعة ووقوف وإطلاع على أنها راضية بتصريح إذن من الثيب وبسكوت من البكر لأن الغالب من حالها أن لا تظهر إرادة النكاح حياء."
(كتاب النكاح، باب الولي في النكاح واستئذان المرأة، 2059/5، ط: دار الفكر، بيروت - لبنان)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"لا يجوز نكاح أحد على بالغة صحيحة العقل من أب أو سلطان بغير إذنها بكرا كانت أو ثيبا فإن فعل ذلك فالنكاح موقوف على إجازتها فإن أجازته؛ جاز، وإن ردته بطل، كذا في السراج الوهاج."
(كتاب النكاح، الباب الرابع في الأولياء في النكاح، وقت الدخول بالصغيرة، 287/1، ط: دارالفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(فنفذ نكاح حرة مكلفة بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا."
(كتاب النكاح، باب الولي، 55/3۔56، ط: سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"(ولا تجبر البالغة البكر على النكاح) لانقطاع الولاية بالبلوغ."
(كتاب النكاح، باب الولي، 58/3، ط: سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(ومنها) رضا المرأة إذا كانت بالغة بكرا كانت أو ثيبا فلا يملك الولي إجبارها على النكاح عندنا."
(كتاب النكاح، الباب الأول، 269/1، ط: دار الفكر بيروت)
فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:
"سوال: ایک لڑکی بالغہ کا نکاح بلا ر ضالڑ کی کے اس کی والدہ اور دیگر وارثوں نے کر دیا جس وقت لڑکی کو خبر ملی تو وہ بہت روتی پیٹتی اپنے گھر پر آئی اور کہا کہ مجھے یہ نکاح منظور نہیں ہے یہ نکاح ہو ا یانہیں ؟
جواب: وہ نکاح باطل ہو گیا۔"
(کتاب النکاح، 77/8، ط: دارالإشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602102783
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن