بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

بلوغت کے بعد جلد شادی کرانا بچے کا حق ہے


سوال

میں ایک طالب علم ہوں، شہوت کا بہت زیادہ غلبہ ہے، بیچ بیچ میں روزے بھی رکھتا رہتا ہوں اور اب رمضان کا پورا مہینہ روزے رکھے ہیں، سحری بھی کبھی کی کبھی نہیں کی، افطاری کی، رات کا کھانا کبھی کھایا کبھی نہیں کھایا لیکن رمضان گزرنے کے بعد پھر حالت بہت زیادہ خراب ہے، اگرچہ سکون تو رمضان میں بھی نہیں تھا،   گھر والے کہتے ہیں جب تک 40، 50 ہزار روپے نہیں کماؤ گے ہم کسی سے بات نہیں کریں گے، میں 15، 20 ہزار روپے کما لیتا ہوں. میری عمر 25 سال ہے ، اِس سال دورہ حدیث کا سال ہے اب رہنمائی فرمائیں کہ دورہ حدیث چھوڑ کر کام پر لگ جاؤں یا کیا کروں؟ اگرچہ کام پر لگنے کے باوجود بھی میں  40، 50 ہزار تو نہیں کما پاؤں گا اور دورہ حدیث کی کتابیں سامنے ہوتے ہوئے غلط غلط خیال کو دور کرنا بھی بہت مشکل ہے، تو اب کیا کروں؟

جواب

واضح رہے  کہ دینِ  اسلام میں ماں باپ پر اولاد کے حقوق میں سے  ہے  کہ جب بچہ پیدا ہو جائے تو اس کا اچھا نام رکھیں ، اور پیدائش کے ساتویں دن یا چودھویں یا اکیسویں دن اس کی طرف سے عقیقہ کردیں اور اس کے بعد سرمنڈا دیں اوربالوں کے برابر چاندی یا اس کی قیمت صدقہ کردیں ، اور اس کو اچھی تعلیم و تربیت دیں ، یہ تمام ذمہ داری بچہ کے بالغ ہونے سے قبل ماں باپ کے ذمہ عائد ہوتی ہیں ، اور جب بالغ ہو جائے تو اس کی شادی کردیں ، اور تاخیر نہ کریں ،لہذا بچہ جب بالغ ہوجائے تو جلد سے جلد اس کے جوڑ کا رشتہ ڈھونڈ کر اس کا نکاح کردینا چاہیے، بشرطیکہ لڑکا اپنی بیوی کا نفقہ دینے پر خود قادر ہو یا کوئی ( والد وغیرہ)  اس کا اور اس کی بیوی کا خرچہ اٹھانے کے لیے تیار ہو،یہ ذمہ داری نان ونفقہ کی قدرت کے  ساتھ مشروط ہے، لیکن اگر شادی کے ضروری اخراجات اور پھر بیوی کا نان ونفقہ اٹھانے کا انتظام  نہ ہو اور والد بھی تیار نہ ہوتو پھر شادی کے لیے والدین کو مجبور کرنا درست نہیں ، بلکہ جب اخراجات کا انتظام ہو تب ہی کرنی چاہیے۔

حدیث شریف میں ہے:

"و عن أبي سعيد و ابن عباس قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ولد له ولد فليحسن اسمه و أدبه فإذا بلغ فليزوّجه، فإن بلغ و لم يزوّجه فأصاب إثماً فإنما إثمه على أبيه».

(مشكاة المصابيح، ج: ۲، صفحہ: ۹۳۹، رقم الحدیث: ۳۱۳۸، ط:  المكتب الإسلامي - بيروت)

ترجمہ: جس کے ہاں بچہ پیدا ہو  اس کی ذمہ داری ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے، بالغ ہونے پر اس کی شادی کرے، اگر شادی نہیں کی اور اولاد نے کوئی گناہ کرلیا تو باپ اس جرم میں شریک ہوگا اور گناہ گار ہوگا۔

 کنز العمال میں حدیثِ  مبارک  ہے:

"حق الولد علی والدہ أن یحسن اسمه و یزوجه إذا أدرك و یعلمه الکتاب."

(کنز العمال، ج: ۱۶، صفحہ: ۴۱۷)

”باپ پر بچے کا یہ حق ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور بالغ ہونے کے بعد اس کی شادی کرائے اور اسے قرآن کا علم سکھائے۔“

حديث شريف ميں ہے:

"و عن عمر بن الخطاب و أنس بن مالك رضي الله عنهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " في التوراة مكتوب: من بلغت ابنته اثنتي عشرة سنةً و لم يزوّجها فأصابت إثماً فإثم ذلك عليه. رواهما البيهقي في شعب الإيمان."

(مشكاة المصابيح، ج: ۲، صفحہ: ۹۳۹، رقم الحدیث: ۳۱۳۹، ط:  المكتب الإسلامي - بيروت)

ترجمہ: تورات میں درج ہے کہ جس کی بیٹی بارہ سال کی ہوجائے اور وہ اس کا نکاح نہ کرے، پھر لڑکی سے کوئی گناہ ہوجائے تو باپ بھی گناہ گار ہوگا۔

لہٰذاصورتِ  مسئولہ میں سائل کو چاہیے کہ وہ خاندان کے کسی قابل اعتماد آدمی کے ذریعے اپنے تمام احوال والدین تک پہنچائیں،  امید ہے کہ  وہ اس معاملے میں فکر مند ہوں گے، انہیں بھی چاہیے کہ کسی دیندار، متوسط گھرانے میں سادگی سے شادی کرادیں۔

سائل کے لیے مشورہ یہی ہے کہ آپ کی تعلیم کا آخری سال ہے؛  اس لیے اپنی تعلیم مکمل کر یں،  امید ہے احادیثِ  مبارکہ  کی برکت سے غلط خیالات سے افاقہ ہو گا۔نیز  نگاہوں کی حفاظت کا خوب اہتمام  کریں، ٹچ موبائل اور  بدنگاہی  کے دیگر ذرائع سے خود کو دور رکھیں، روزوں  کے ساتھ کھانے پینے میں بھی احتیاط کریں، اور دعاؤں کا بھی اہتمام  کریں۔ اور  قریب میں جو بھی صاحبِ نسبت  بزرگ عالم  ہوں ان سے اِصلاحی تعلق قائم کریں، ان کی ہدایات پر عمل کریں۔

فتاون شامی میں ہے:

"(و يكون واجبًا عند التوقان) فإن تيقن الزنا إلا به فرض نهاية، و هذا إن ملك المهر و النفقة و إلا فلا إثم بتركه بدائع ... و يندب إعلانه و تقديم خطبة و كونه في مسجد يوم جمعة بعاقد رشيد و شهود عدول و الاستدانة له."

(کتاب النکاح ،ج: ۳، صفحہ: ۸، ط: ایچ، ایم، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510100254

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں