بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

بالوں کو اطراف سے کاٹ کر درمیان سے چھوڑنے کا حکم


سوال

کیا  سر کے بالوں کو اطراف سے منڈوا کر درمیان کے بالوں کو چھوڑنا جائز ہے؟ میں نے کتابوں میں پڑھا ہے شرعاًیہ ناجائز ہے، جب کہ احادیثِ مبارکہ کے ذخائر میں مجھے چند روایات ایسی ملی ہیں جن یہ ذکر ہے کہ اللہ کے نبی ﷺنے اپنے سر مبارک کے دائیں اور      بائیں جانب کے بالوں کو منڈوایاتھااور درمیان کے بالوں کو چھوڑ دیا تھا، وہ  روایات  یہ ہیں:

(1)صحیح مسلم کی حدیث نمبر: 1305  اور (2)ابوداؤدشریف کی حدیث نمبر:1981   میں ہے۔

جواب

 بال کٹوانے کے سلسلے میں شریعت کا  حکم یہ ہے کہ  یا تو  سر کے پورے بال رکھے جائیں یا پورے کاٹے جائیں، سر کے کچھ بال کو کاٹنا اور کچھ کو چھوڑدینا یا سر کے کچھ حصے کو منڈوا کر کچھ حصے کو چھوڑنا ناجائزہے، احادیثِ مبارکہ میں  اُسے "قزع" سے تعبیر کرکے اس کی سخت ممانعت بیان کی گئی ہے، اور "قزع"  کی مختلف صورتیں ہیں، حاصل ان کا یہی ہے کہ سر کے بال کہیں سے کاٹے جائیں اور کہیں سے چھوڑدیے جائیں یا سر کے کچھ حصے کو منڈوا کر کچھ حصے کو چھوڑ دیا جائے، لہذا سر کو اطراف سے منڈوا کر درمیان والے حصے کے بالوں کو چھوڑنا شرعاً جائز نہیں ہے۔

باقی سوال میں ذکر کردہ احادیث  مبارکہ  کا مفہوم اور مقصد جو  سائل نے سمجھا ان احادیث کا ہرگز وہ مفہوم  نہیں ہے، بلکہ ان احادیث میں تو یہ بتایا گیا کہ  آپ ﷺ  حجۃ الوداع  کے موقع پر جمرات  کی رمی اور قربانی  کے عمل سے فارغ ہو کر حلق کے ذریعے احرام کی پابندیوں سے نکلنے کے لیے  جب حلاق/حجام کے پاس سر منڈوانے کے لیے تشریف لے گئے تو  حجام سے فرمایا  کہ حلق کے اس  عمل کو بھی دائیں جانب سے شروع کرو یعنی پہلے دائیں جانب کے بال کاٹو،  پھر بائیں جانب کے، جیسا کہ ہمارے دین اسلام کی تعلیمات میں سے ہے کہ ہر ذی شان کام کی ابتدا  دائیں جانب سے کرنا چاہیے،لہذا  سائل کی یہ تشنگی و اشکال  مکمل روایت کو نہ پڑھنے اور نہ سمجھنے کی وجہ سے پیش آئی ،لہذا کسی بھی روایت کو کماحقہ سمجھنے کے لیے اس روایت کی سیاق و سباق اور محل ِورود  وغیرہ کو سمجھنا از  حد ضروری ہے۔  

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن نافع عن ابن عمر قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم ينهى عن ‌القزع. قيل لنافع: ما ‌القزع؟ قال: يحلق بعض رأس الصبي ويترك البعض وألحق بعضهم التفسير بالحديث."

(‌‌كتاب اللباس، ‌‌باب الترجل، ج:2، ص:1262، ط:المكتب الإسلامي بيروت)

ترجمہ:حضرت نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو  ’’قزع‘‘سے منع فرماتے ہوئے سنا، حضرت نافع سے پوچھا گیا کہ قزع کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا (قزع اس کو کہتے ہیں کہ ) لڑکے کے سر کے بعض حصہ کو مونڈا جائے اور بعض حصے کو چھوڑ دیا جائے  اور بعض راویوں نے وضاحت کو حدیث کے ساتھ جوڑا ہے یعنی راوی کے مطابق، قزع کے یہ معنی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے بیان فرمائے ۔

مذکورہ حدیث کی تشریح میں صاحب مظاہر حق لکھتے ہیں :

 علامہ نوویؒ کہتے ہیں کہ قزع کے معنی مطلق (کسی کے بھی ) سر کے کچھ حصے کو مونڈنا (اور کچھ حصے کو بغیر مونڈے چھوڑ دینا ہیں ) اور یہی معنی زیادہ صحیح ہیں؛ کیوں کہ حدیث کے روای نے بھی یہی معنی بیان کیے ہیں،  اور یہ حدیث کے ظاہری مفہوم کے مخالف بھی نہیں ہیں،  لہٰذا اسی معنی پر اعتماد کرنا واجب ہے!  جہاں تک " لڑکے " کی تخصیص کا ذکر ہے تو یہ محض عام رواج و عادات کی بنا پر ہے، ورنہ قزع جس طرح لڑکے کے حق میں مکروہ ہے، اس طرح بڑوں کے حق میں بھی مکروہ ہے، اسی لیے فقہی روایات میں یہ مسئلہ کسی قید و استثنا  کے بغیر بیان کیا جاتا ہے اور قزع میں کراہت اس اہلِ  کفر کی مشابہت اور بد ہیئتی سے بچانے کے لیے ہے ۔ 

صحيح مسلم میں ہے:

"عن أنس بن مالك : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أتى منى، فأتى الجمرة فرماها، ثم أتى منزله بمنى ونحر، ‌ثم ‌قال: ‌للحلاق ‌خذ، ‌وأشار ‌إلى ‌جانبه ‌الأيمن، ‌ثم ‌الأيسر، ثم جعل يعطيه الناس ."

(‌‌باب بيان أن السنة يوم النحر أن يرمي ثم ينحر ثم يحلق، والابتداء في الحلق بالجانب الأيمن من رأس المحلوق، ج:4، ص:82، ط:دار الطباعة العامرة تركيا)

ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ تشر یف لا ئے پھر جمرہ عقبہ کے پاس آئے اور اسے کنکریاں ماریں پھر منیٰ میں اپنے پڑاؤ پر آئے اور قربانی کی، پھر بال مونڈنے والے سے فرمایا: " پکڑو۔"اور آپ نے اپنے (سر کی) دائیں طرف اشاراہ کیا پھر بائیں طرف پھر آپ (اپنے موئے مبارک) لوگوں کو دینے لگے."

مرقاة المفاتيح میں ہے: 

"قال ابن الهمام: أخرج الجماعة إلا ابن ماجه، عن أنس بن مالك أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أتى منى، فأتى الجمرة، فرماها، ثم أتى منزله بمنى، فنحر، ‌ثم ‌قال ‌للحلاق: ‌خذ، ‌و أشار ‌إلى ‌جانبه ‌الأيمن، ‌ثم ‌الأيسر، ثم جعل يعطيه الناس، وهذا يفيد أن السنة في الحلق: البداءة بيمين المحلوق رأسه، وهو خلاف ما ذكر في المذهب، و هذا هو الصواب ... و قال السروجي: وعند الشافعي يبدأ بيمين المحلوق، وذكر كذلك بعض أصحابنا."

‌‌‌‌(كتاب المناسك، باب الحلق، ج:5، ص:1831، ط:دار الفكر بيروت لبنان)

شرح مسند الشافعي میں ہے:

"ومقصود الأثرين أنه يستحب في التقصير البداية بالشق الأيمن كما يستحب ذلك في الحلق،وقد روي أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يحب التيامن في الأمر كله.وفي "الصحيحين" من رواية ابن سيرين عن أنس بن مالك، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أتى منى فأتى الجمرة فرماها ثم أتى منزله بمنى ونحر ثم قال للحلاق: "خذ" وأشار إلى جانبه الأيمن ثم الأيسر، ثم جعل يعطيه الناس."

(كتاب الحج من الأمالي، ج:4، ص:263، ط:إدارة الشؤون الإِسلامية قطر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510100894

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں