بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بلوغت کےبعدچھوڑےگئےروزوں کی قضاء


سوال

میں نے کلاس 12 کے بعد مکمل روزے رکھنے شروع کئے، اور مجھے معلوم نہیں کہ روزے مجھ پر کب فرض ہوئے تھے، اب میں چھوڑے گئے روزوں کی قضا کرنا چاہتی ہوں، جب میں نے روزے رکھنے شروع کئے اس وقت میری عمر 18 سال تھی، تو اس حساب سے کتنے سال کے روزوں کی قضا کروں ؟

جواب

واضح رہے کہ انسان نماز،روزہ اوردیگراحکام شرعیہ کامکلف بلوغت کے بعد ہوتاہے ،بلوغت کی علامات (لڑکے میں احتلام ،یا انزال وغیرہ ،اورلڑکی میں احتلام یا حیض وغیرہ )جب پائی جائیں تو اسی وقت سے یہ احکام اس پر  لاز م ہوجاتے ہیں، لیکن اگر بلوغت کی کوئی علامت نہ پائی جائے تو لڑکااورلڑکی پندرہ سال کی عمر پوری ہونے پربالغ  سمجھے جائیں گے،اورنمازوروزہ فرض ہوجائیں گے ۔

لہذاصورت ِمسئولہ میں سائلہ اگر مذکورہ علامات کی وجہ سے بالغ ہوتی ہے، تواسی عمر سے نمازوروزہ فرض ہوگئے ،اس دوران جتنے سال کے روزے چھوڑے ان کی قضاء کرے گی  ،اسی طرح جونمازیں بغیرکسی شرعی عذر(حیض ) کے  چھوڑیں ان کی بھی قضاء کرےگی ،اوراگر پندرہ سال سے پہلے بلوغت کی کوئی علامت نہیں پائی گئی  توپندرہ سال کی عمرپوری ہونے پرہی بالغ  ہوئی ،اب صرف تین سال کے روزے قضاء کرے گی ،نیزچھوڑے گئے روزوں کی قضاء کرتےہوئےہر ایک روزے کے بدلے صرف ایک روزہ قضا رکھنا ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"بلوغ الغلام بالاحتلام أو الإحبال أو الإنزال، والجارية بالاحتلام أو الحيض أو الحبل، كذا في المختار. والسن الذي يحكم ببلوغ الغلام والجارية إذا انتهيا إليه خمس عشرة سنة عند أبي يوسف ومحمد - رحمهما الله تعالى - وهو رواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وعليه الفتوى."

(کتاب الحجر،الفصل الثاني في معرفة حد البلوغ،ج:5،ص:61،ط:دار الفكر بيروت)

وفیہ أیضاً:

"(منها) أن يسقط عن الحائض والنفساء الصلاة فلا تقضي....(ومنها) أن يحرم عليهما الصوم فتقضيانه هكذا في الكفاية إذا شرعت في صوم النفل ثم حاضت يلزمها القضاء احتياطا. هكذا في الظهيرية."

(کتاب الطهارۃ،الفصل الرابع فی احکام الحیض والنفاس،ج:1ص:38،ط:دار الفكر بيروت)

وفیہ أیضاً:

"كل صلاة فاتت عن الوقت بعد وجوبها فيه يلزمه قضاؤها سواء ترك عمدا أو سهوا أو بسبب نوم وسواء كانت الفوائت كثيرة أو قليلة"

(کتاب الصلاۃ،الباب الحادی عشرفی قضاء الفوائت،ج:1،ص:121،ط:دار الفكر بيروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"لأن المعتبر عدد الأيام التي أفطر فيها دون الهلال‌لأن ‌القضاء يكون على قدر الفائت."

(کتاب الصوم،فصل شرائط انواع الصوم،ج:2،ص:83،ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144609101375

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں