بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

بالوں کورنگنے کا حکم


سوال

کیا بالوں کو رنگنا جائز ہے  ؟اس کے متعلق میں نے ایک حدیث پڑھی ہےکے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ یہودی اور عیسائی اپنے بال نہیں ر نگتے تو تم ان کی مخالفت کرو کیا یہ صحیح ہے؟

جواب

بالوں کو رنگنا جائز ہے، البتہ خالص کالے رنگ کاخضاب لگاناجائز نہیں  ہے، احادیثِ مبارکہ میں اس کی ممانعت اور سخت وعیدآئی ہے، صرف حالتِ جہاد میں دشمن کو مرعوب رکھنے اور اس کے سامنے جوانی اور طاقت کے اظہار کے لیے کالا خضاب استعمال کرنے کی  اجازت دی گئی ہے۔ ابوداودشریف کی روایت میں ہے:"حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہماارشادفرماتے ہیں: جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آخری زمانہ میں کچھ لوگ ہوں گے جوسیاہ خضاب لگائیں گے،جیسے کبوترکاسینہ،ان لوگوں کوجنت کی خوشبوبھی نصیب نہ ہوگی"۔البتہ خالص کالے رنگ کے علاوہ دیگر رنگوں کے خضاب لگانا جائز ہے،مثلاً خالص براؤن،سیاہی مائل براؤن یا سرخ (لال)کلر لگانا جائز ہے۔

باقی جو حدیث شریف میں ہے کہ "یہود اور نصاری رنگ نہیں لگاتے ہیں تم ان کی مخالفت کرو"تو اس  حدیث کی تشریح میں علامہ ابن حجر ؒفرماتے ہے: 

’’خضاب لگانے/ نہ لگانے  کے بارے میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف روایات وارد ہیں ،   اسی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کے درمیان اس مسئلہ میں اختلاف ہوا ہے،چنانچہ حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما وغیرہ  حضرات خضاب لگاتے تھے،جب کہ حضرت علی،ابی بن کعب،سلمہ بن اکوع،انس  رضی اللہ عنہم اور(اِن کے علاوہ) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت خضاب نہیں لگاتی تھی۔(حافظ محب الدین ) طبری رحمہ اللہ  نے  ( صحابہ کرام کے مابین  اِن دونوں قسم کی آراء کو) یوں جمع کیا ہے کہ  اُن حضرات میں سے جو رنگتے تھے(یعنی خضاب لگاتے تھے)اُن  کےلیے  مناسب یہی تھا،جیسے کسی شخص کے بالوں کی سفیدی بدنما معلوم ہورہی ہو (تو اُس کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ اُنہیں خضاب لگائے)،اور جو حضرات نہیں رنگتے تھے(یعنی خضاب نہیں لگاتے تھے) اُن کےلیے   مناسب یہی تھا، جیسے کسی شخص کے بالوں کی سفیدی بدنما معلوم نہ ہورہی ہو (تو اُس کےلیے مناسب  یہی ہے کہ وہ اُنہیں خضاب نہ لگائے) ۔"

سنن ِنسائی میں ہے:

" أخبرنا عبد الرحمن بن عبيد الله الحلبي، عن عبيد الله وهو ابن عمرو، عن عبد الكريم، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، رفعه أنه قال: «قوم يخضبون بهذا السواد آخر الزمان كحواصل الحمام، لايريحون رائحة الجنة."

(کتاب الزینۃ، النہی عن الخضاب بالسواد، 138/8، رقم ، 5080، ط، بیروت)

 فتاوی ہندیہ میں ہے:

"اتفق المشايخ رحمهم الله تعالى أن الخضاب في حق الرجال بالحمرة سنة وأنه من سيماء المسلمين وعلاماتهم وأما الخضاب بالسواد فمن فعل ذلك من الغزاة ليكون أهيب في عين العدو فهو محمود منه، اتفق عليه المشايخ رحمهم الله تعالى ومن فعل ذلك ليزين نفسه للنساء وليحبب نفسه إليهن فذلك مكروه وعليه عامة المشايخ".

( كتاب الكراهية، الباب العشرون في الزينة واتخاذ الخادم للخدمة، ٥ / ٣٥٩، ط: دار الفكر)

فتح الباری میں ہے:

"وقد اختلف في الخضب وتركه فخضب أبو بكر وعمر وغيرهما كما تقدم وترك الخضاب علي وأبي بن كعب وسلمة بن الأكوع وأنس وجماعة وجمع الطبري بأن من صبغ منهم كان اللائق به كمن يستشنع شيبه ومن ترك كان اللائق به كمن لا يستشنع شيبه وعلى ذلك حمل قوله صلى الله عليه وسلم في حديث جابر الذي أخرجه مسلم في قصة أبي قحافة حيث قال صلى الله عليه وسلم لما رأى رأسه كأنها الثغامة بياضا غيروا هذا وجنبوه السواد ومثله حديث أنس الذي تقدمت الإشارة إليه أول باب ما يذكر في الشيب وزاد الطبري وبن أبي عاصم من وجه آخر عن جابر فذهبوا به فحمروه والثغامة بضم المثلثة وتخفيف المعجمة نبات شديد البياض زهره وثمره قال فمن كان في مثل حال أبي قحافة استحب له الخضاب لأنه لا يحصل به الغرور لأحد ومن كان بخلافه فلا يستحب في حقه ولكن الخضاب مطلقا أولى لأنه فيه امتثال الأمر في مخالفة أهل الكتاب وفيه صيانة للشعر عن تعلق الغبار وغيره به إلا إن كان من عادة أهل البلد ترك الصبغ وأن الذي ينفرد بدونهم بذلك يصير في مقام الشهرة ‌فالترك ‌في ‌حقه أولى."

(کتاب اللباس ، باب الخضاب ، 355/10، ط، دار المعرفۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510102133

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں