بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بینک کی طرف سے ملنے والے کھانے کا حکم


سوال

بینک الحبیب  اسلامی کی طرف سے  کھانے کی کوئی  چیز (چاکلیٹ) آجائے، تو اس کا کیا حکم ہے؟  لے لیا جائے یا معذرت کرلی جائے؟

جواب

واضح رہے کہ ہر وہ شخص یا ادارہ جس کی آمدن مکمل طور پر حرام  کی ہو یا اکثر حرام کی ہو، اس کا ہدیہ قبول کرنا یا اس کی دعوت قبول کرنا درست نہیں ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ بینک یا کسی بھی بینک کی جانب سے پیش کردہ کھانے پینے کی اشیاء  کا استعمال جائز نہیں ہے، اس سے مکمل اجتناب لازم ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولا يأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالا لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط."

(كتاب الكراهية، الباب الثاني عشر في الهدايا والضيافات، ج: 5، ص: 343، ط: دارالفکر بیروت)

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر  میں ہے:

"وفي البزازية غالب مال المهدي إن حلالا لا بأس بقبول هديته وأكل ماله ما لم يتبين أنه من حرام؛ لأن أموال الناس لا يخلو عن حرام فيعتبر الغالب وإن غالب ماله الحرام لا يقبلها ولا يأكل إلا إذا قال إنه حلال ورثته أو استقرضته ولهذا قال أصحابنا لو أخذ مورثه رشوة أو ظلما إن علم وارثه ذلك بعينه لا يحل له أخذه وإن لم يعلمه بعينه له أخذه حكما لا ديانة فيتصدق به بنية الخصماء."

(كتاب الكراهية، فصل في الكسب، ج: 2، ص: 529، ط: دار إحياء التراث العربي، بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603103341

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں