بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 ذو الحجة 1445ھ 03 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

بنجر زمين آباد كرنے كے بعد حکومت رجسٹرڈ کر دے تو اس کا کیا حکم ہے ؟


سوال

عرض یہ ہے کہ ہمارے علاقے (ضلع بونیر ) میں یہ معمول ہے کہ گاؤں میں جس کی جتنی زمین ہوگی،وہ صحرا  میں بھی اتنی زمین لیتاہے،اور گاؤں کے جو بڑے ہوتے ہیں وہ تقسیم کرتے ہیں،میرے والد گاؤں والی مسجد میں امام تھے،امام مسجد کو تنخواہ کی جگہ زمین دی جاتی  تھی ، یہی دستور ہر گاؤں کا تھا، 1960 میں صحرا والی زمین  کا کچھ ٹکڑا میرے والد کے حصے میں آیا، جو میرے والد نے آباد کیاتھا،اوریہ جگہ حکومت نے میرے والد کے نام رجسٹرڈ بھی کر دی تھی ،جب ہمارا علاقہ  1977ء میں حکومت کی زیرِ نگرانی آیا تو حکومت نے اپنے پٹواری کو بلاکر اور سارا حساب کتاب کرکے جس کے پاس صحرا والی جتنی زمین تھی  ،وہ ان کے نام رجسٹرڈ کردی،تو اس دوران ہمارے والد مرحوم کی جو صحرا والی زمین تھی وہ بھی رجسٹرڈ کی،1994ء میں میرے والد مرحوم کا انتقال ہوگیاہے، اس کے بعد میرے بڑے بھائی نے 2005ءتک امامت کی، میرے گاؤں والوں کا کہناہےکہ تم  لوگوں  نے گاؤں والی مسجد میں امامت چھوڑ دی ہے ،اس وجہ سے صحراء والی زمین جو تمہارے والدنے آباد کی تھی،اس میں تمہارا کوئی حق نہیں ہے،اب ہمارے گاؤں والے لوگ اپنے غاصبانہ نظام کے تحت جو زمین ہمارے والد نے صحرا میں آباد کی تھی اور اس کے حکومت کے کاغذات بھی ہیں،اس زمین کو مسجد کی ملکیت سمجھتے ہیں،اور مسجد کے بہانے سےہماری گاؤں والی زمین کو اپنی ملکیت میں لینا چاہتے ہیں،اور ہمارے علاقے میں جتنی بھی گاؤں والی مساجد ہیں اور ان کے ائمہ کی جو صحرا والی زمین ہے،ان ائمہ کےوہاں سے چلے جانے کے بعد بھی صحرا والی زمین ان ہی کی ہے،صرف ہمارےگاؤں والوں نے یہ مسئلہ بنایاہوا ہے۔

 1:اب سوال یہ ہے کہ جو صحرا میں ہماری زمین ہے وہ ہماری ہی ہوگی یا گاؤں والوں کے غاصبانہ نظام کے تحت مسجد کے نام پر گاؤں والوں  کی ملکیت شمار ہوگی؟

2:گاؤں والوں نے ہماری اجازت کے بغیر اس زمین کا کچھ حصہ بیچ کر پیسے مدرسہ  پر لگا دیے ہیں کیا ان کا ایسا کرنا جائز ہے ؟

3:اب جو  نئے  امام  آئے ہیں وہ ہماری زمین کے  زبردستی مالک بن گئے ہیں ،کیا ان کے لیے ایسا کرنا جائز ہے؟ اس کا گناہ اس امام پر ہو گا یا گاؤں والوں پر؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں چونکہ سائل کے والد کو امامت کے معاوضے میں گاؤں کی زمین ملی تھی اس لیے وہ زمین ان کی ذاتی ملکیت ہوئی اور مسجد کی نہ ہوئی پھر جب  والد کو صحرا والی زمین ملی اور والد نے اسے آباد بھی کردیا اور گورنمنٹ نے وہ زمین قانونی طور پر سائل کے والد کی ملکیت میں میں بھی دے دی تو وہ زمین سائل کے والد کی ذاتی مملوکہ ہے اور ان کے انتقال کے بعد  ان  کے ورثاء کی ملکیت ہے،کسی اور کا اس میں کوئی حق نہیں ہے،لہذا گاؤں والوں کو یہ حق نہیں ہےکہ مذکورہ زمین میں مداخلت کریں۔

2:  گاؤں والوں کا  مذکورہ زمین کو وارثوں کی اجازت  کے بغیر   بیچناغصب کے حکم میں ہے ،   جو کہ ناجائز اور حرام ہے  ،نیز یہ بیع   نافذ نہ ہو گی بلکہ مالکان کی اجازت پر موقوف ہو گی،اور اجازت کی صورت میں اس کی قیمت مالک کو لوٹانا ضروری ہوگا۔

3:جب سرکاری دستاویزات میں آپ کے والد کو اس زمین کے مالکانہ تصرفات دے دیے گئے تھے تو اب یہ زمین ان کے وارثوں کی ہو گی ،نئے امام کو جب یہ معلوم ہے کہ یه  زمین   اصل مالكوں سے غصب كي گئي ہے،تو اس کے لیے اس زمین میں تصرف  کرنا ناجائز ہے، بلکہ سابقہ امام کے وارثوں کو لوٹانا ضروری ہے  ورنہ  گاؤ ں والے بھی گناہ گار ہوں گے اور   موجودہ امام بھی گناہ گار ہوگا۔

سنن دار قطنی میں ہے : 

"عن أنس بن مالك ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا ‌يحل ‌مال امرئ مسلم إلا بطيب نفسه."

(کتاب البيوع ،رقم الحديث :2885،ج:3 ،ص:424،ط : مؤسسة الرسالة)

صحيح البخاری  میں ہے :

"عن أسماء بنت أبي بكر رضي الله عنهما، قالت: «كنت أنقل النوى من أرض الزبير التي أقطعه رسول الله صلى الله عليه وسلم على رأسي، وهي مني على ثلثي فرسخ» وقال أبو ضمرة، عن هشام، عن أبيه: أن النبي صلى الله عليه وسلم أقطع الزبير أرضا من أموال بني النضير."

(باب ما كان النبي صلى الله عليه وسلم يعطي المؤلفة قلوبهم وغيرهم من الخمس ونحوه ،ج:4 ،ص:92 ، ط : السلطانیۃ، ببولاق مصر)

مصنف ابن ابي شيبة ميں هے:

"عن سعيد بن زيد قال: سمعت النبي -صلى اللَّه عليه وسلم يقول: "‌من ‌أخذ ‌شبرا ‌من ‌الأرض ‌ظلمًا فإنه يطوقه من سبع أرضين".

(كتاب البيوع ، فصل في الرجل يسرق من الرجل،ج :12 ، ص :232، ط:دار الكنوز)

ہدایہ میں ہے :

"الغصب في اللغة: أخذ الشيء من الغير على سبيل التغلب للاستعمال فيه. وفي الشريعة: أخذ مال متقوم محترم بغير إذن المالك على وجه يزيل يده. حتى كان استخدام العبد وحمل الدابة غصبا دون الجلوس على البساط، ثم إن كان مع العلم فحكمه المأثم والمغرم، وإن كان بدونه فالضمان؛ لأنه حق العبد فلا يتوقف على قصده ولا إثم؛ لأن الخطأ موضوعوعلى الغاصب رد العين المغصوبة" معناه ما دام قائما لقوله عليه الصلاة والسلام: "على اليد ما أخذت حتى ترد" وقال عليه الصلاة والسلام: "لا يحل لأحد أن يأخذ متاع أخيه لاعبا ولا جادا، فإن أخذه فليرده عليه" ولأن اليد حق مقصود وقد فوتها عليهفيجب إعادتها بالرد إليه، وهو الموجب الأصلي على ما قالوا، ورد القيمة مخلص خلفا؛ لأنه قاصر، إذ الكمال في رد العين والمالية. وقيل الموجب الأصلي القيمة ورد العين مخلص، ويظهر ذلك في بعض الأحكام".

(کتاب الغصب ،ج:4 ،ص:296،ط: دارالإحیاء)

فتح القدير للكمال ابن الهمام  میں ہے :

"قال (الموات ما لا ينتفع به من الأراضي لانقطاع الماء عنه أو لغلبة الماء عليه أو ما أشبه ذلك مما يمنع الزراعة) سمي بذلك لبطلان الانتفاع به. قال (فما كان منها عاديا لا مالك له أو كان مملوكا في الإسلام لا يعرف له مالك بعينه وهو بعيد من القرية بحيث إذا وقف إنسان من أقصى العامر فصاح لا يسمع الصوت فيه فهو موات).........(ثم من أحياه بإذن الإمام ملكه، وإن أحياه بغير إذنه لم يملكه عند أبي حنيفة - رحمه الله -، وقالا: يملكه) لقوله - عليه الصلاة والسلام - «من أحيا أرضا ميتة فهي له» ولأنه مال مباح سبقت يده إليه فيملكه كما في الحطب والصيد. ولأبي حنيفة - رحمه الله - قوله - عليه الصلاة والسلام - «ليس للمرء إلا ما طابت نفس إمامه به» وما روياه يحتمل أنه إذن لقوم لا نصب لشرع، ولأنه مغنوم لوصوله إلى يد المسلمين بإيجاف الخيل والركاب فليس لأحد أن يختص به بدون إذن الإمام كما في سائرالغنائم."

(کتاب احیاء الموات : ج: 10، ص: 69، ط : شركة مكتبة ومطبعة مصفى البابي الحلبي وأولاده بمصر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101740

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں