بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک بیلنس پر زکاۃ


سوال

میرے پاس جو رقم بینک میں ہے، اگر اس کی مالیت ساڑھےباون تولہ چاندی سے زائد ہے تومکمل رقم کا ڈھائی فیصد جس پر سال گزرا ہو  کی زکاۃ ادا کی جاےگی؟

جواب

جو مسلمان عاقل، بالغ اور صاحبِ  نصاب ہو اس پر زکاۃ  کی ادائیگی فرض ہے، صاحبِ  نصاب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر نقد رقم یا مالِ  تجارت ہو  یا ان چاروں چیزوں کی یا ان میں سے بعض کی تھوڑی تھوڑی مقدار ہو  اور سب کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزرجائے اور سال پورا ہونے پر نصاب یا اس سے زیادہ موجود ہو تو اس  کی کل مالیت کا ڈھائی فیصد زکاۃ  میں ادا کرنا ضروری ہے۔

سال گزرنے کا مطلب یہ ہے کہ سال کے آغاز اور اختتام پر آدمی صاحبِ نصاب ہو، درمیان سال میں آنے والی اور خرچ ہونے والی رقم کا حساب نہیں کیا جائے گا، الا یہ کہ کسی کی ملکیت سے رقم مکمل طور پر ختم ہوجائے تو  ایسی صورت میں آدمی کے پاس جب دوبارہ نصاب کے بقدر مال آئے گا تو اسی وقت سے اس کا زکاۃ کا سال شروع ہوگا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ کے بینک میں رکھی ہوئی رقم، اور اسی طرح آپ کی ملکیت میں اگر سونا، چاندی، نقدی یا مال تجارت وغیرہ ہو تو ان سب کے مجموعہ کی قیمت معلوم کریں، اور اس کے بعد  زکاۃ کا سال پورا ہونے تک کے واجب الادا  اخراجات مثلاً قرضہ، بل وغیرہ اس سے منہا کریں، جو رقم بچ جائے اگر وہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت سے زیادہ ہو تو اس کا ڈھائی فیصد زکاۃ میں دینا ضروری ہوگا۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109201131

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں