بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک کی ملازمت اور تنخواہ کا حکم


سوال

 ایک شخص بینک میں ملازمت کرتا ہے اور وہ لوگوں کے انشورنس بھی کرتا ہے اور لوگوں کو اس کے بارے میں دعوت بھی دیتا ہے اور اس کے علاوہ بینک کے دیگر کاموں کو بھی انجام دیتا ہے کیا اس شخص کی ملازمت کرنے کی تنخواہ درست ہے؟ 

جواب

قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں سود کی حرمت اور مذمت بڑی سختی سے بیان کی گئی ہے، لہٰذا قرآن و حدیث کی رو سے سود لینا، دینا، سودی معاملہ لکھنا یا اس میں گواہ بننا اور تعاون کرنا سب ناجائز اور حرام ہے۔ مروجہ تمام بینکوں کا مدار سودی نظام پر ہی ہے اور وہ اپنے ملازمین کو تنخواہ بھی سود کے پیسوں سے دیتے ہیں، نیز بینک کی ملازمت میں سودی معاملات میں تعاون بھی ہے؛  لہٰذا بینک میں کسی بھی قسم کی نوکری کرنا جائز نہیں ہے اور اس سے حاصل ہونے والی تنخواہ بھی حرام اور واجب التصدق ہے۔

 قرآنِ مجید  میں سودی لین دین کو اللہ اور اس کے رسول ﷺکے ساتھ اعلان جنگ قرار دیاگیا ہے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

"{یَا أَیُّهَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَابَقِیَ مِنَ الرِّبوٰ إِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ، فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِه}."[البقرۃ:278،279]

ترجمہ:"اے ایمان والو!  اللہ سے ڈرو ، اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑدو،  اگر  تم ایمان والے ہو، پھر اگر تم (اس پر عمل  ) نہ کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا  اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول  کی طرف  سے۔"(از بیان القرآن)

"{يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ}."[البقرة:276]

ترجمہ:" اللہ سود کو مٹاتے ہیں ،  اور صدقات کو بڑھاتے ہیں۔"(از بیان القرآن)

"{وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ}."[المائدة:2]

ترجمہ:" اور گناہ  اور زیادتی میں  ایک  دوسرے  کی اعانت مت کرو ، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو ، بلاشبہ  اللہ تعالیٰ  سخت سزا دینے والے ہیں۔"(از بیان القرآن)

حدیث شریف میں ہے:

"عن جابر قال: لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم آکل الربا، وموکله، وکاتبه، وشاهدیه، وقال: هم سواء".

(صحيح مسلم ، با ب لعن آکل الربا، ومؤکله، 1219/3،: دار إحياء التراث العربي)

ایک اور حدیثِ مبارک  میں ہے:

"وعن ابن مسعود رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الربا وإن كثر فإن عاقبته تصير إلى قل. رواهما ابن ماجه والبيهقي في شعب الإيمان."

(مشکاة المصابیح، باب الربوا، ص:246، ط:قدیمی)

ترجمہ:" حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سود سے حاصل ہونے والا مال خواہ کتنا ہی زیادہ ہو مگر اس کا انجام کمی یعنی بے برکتی ہے۔"(از مظاہر حق)

فتاویٰ شامی میں ہے : 

"(لا تصح الإجارة لعسب التيس) وهو نزوه على الإناث (و) لا (لأجل المعاصي مثل الغناء والنوح والملاهي) ولو أخذ بلا شرط يباح.

وفي المنتقى: امرأة نائحة أو صاحبة طبل أو زمر اكتسبت مالا ردته على أربابه إن علموا وإلا تتصدق به، وإن من غير شرط فهو لها: قال الإمام الأستاذ لا يطيب، والمعروف كالمشروط اهـ. قلت: وهذا مما يتعين الأخذ به في زماننا لعلمهم أنهم لا يذهبون إلا بأجر ألبتة ط".

(کتاب الاجارۃ، 55/6،سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه اهـ".

( كتاب الحضر و الاباحة، فصل في البيع، 6/ 385، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101463

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں