بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بینک میں نماز پڑھنا


سوال

 کیا بینک کے اندر فرض نماز پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب

اگر بینک کی عمارت کی تعمیر حرام مال سے کی گئی ہو تو اس میں نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے، یعنی کراہتِ تحریمی کے ساتھ نماز ہو جائے گی، اعادہ کی ضرورت نہیں ہو گی، اور اگر عمارت کی تعمیر حرام مال سے نہیں ہے تو اس میں نماز پڑھنا بلا کراہت جائز ہے۔

فتاویٰ رشیدیہ میں ہے:

"حرام مال سے بنائے ہوئے مکان میں نماز:

سوال: اگر مال حرام سےایک مکان بنایا گیا،لیکن زمین اس کی  پاک ہے وہ مال حرام سے نہیں خریدی گئی، بلکہ وہ مکان سرکاری زمین کے اندر باجازت سرکار بنایا گیا ہے، اندریں صورت مکان مذکورہ میں نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ اور قیام و سکونت کرنا اس میں کیا حکم رکھتا ہے؟ اس مکان کے صحن و کوٹھ ہر دو میں نماز مکروہ ہے یا فقط جہاں تک تعمیر ہو مکروہ ہے باقی صحن میں نماز بلاکراہت جائز ہے؟

جواب: جس مکان کی زمین حلال ہو اور بناء حرام ہو اس میں نماز مکروہ ہوتی ہے،مگر ایسی جگہ کہ اثر بناء کانہ ہو اس میں کراہت نہ ہوگی۔"

(کتاب وقف کے مسائل،باب مساجد کے احکام کا بیان،ص: 540، ط: عالمی مجلس تحفظ اسلام)

الدر المختار میں ہے:

"تكره في أماكن كفوق كعبة... وأرض مغصوبة أو للغير لو مزروعة أو مكروبة".

وفي الرد:"(قوله: وأرض مغصوبة أو للغير)... فإن اضطر بين أرض مسلم وكافر يصلي في أرض المسلم إذا لم تكن مزروعة. فلو مزروعة أو لكافر يصلي في الطريق اهـ أي لأن له في الطريق حقا...

وفي الواقعات بنى مسجدا على سور المدينة لا ينبغي أن يصلي فيه؛ لأنه من حق العامة فلم يخلص لله تعالى كالمبني في أرض مغصوبة اهـ".

(كتاب الصلاة، مطلب في الصلاة في الأرض المغصوبة ودخول البساتين وبناء المسجد في أرض الغصب،1/ 379، ط: سعيد)

فتح الباری میں ہے:

"قوله وجعلت لي الأرض مسجدا أي مو ضع سجود لا يختص السجود منها بموضع دون غيره ويمكن أن يكون مجازا عن المكان المبني للصلاة وهو من مجاز التشبيه لأنه لما جازت الصلاة في جميعها كانت كالمسجد في ذلك...  والأظهر ما قاله الخطابي وهو أن من قبله إنما أبيحت لهم الصلوات في أماكن مخصوصة كالبيع والصوامع ويؤيده رواية عمرو بن شعيب بلفظ وكان من قبلي إنما كانوا يصلون في كنائسهم وهذا نص في موضع النزاع فثبتت الخصوصية ويؤيده ما أخرجه البزار من حديث بن عباس نحو حديث الباب وفيه ولم يكن من الأنبياء أحد يصلي حتى يبلغ محرابه".

(‌‌كتاب التيمم، 1/ 437، ط:دار المعرفة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144605101244

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں