بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک سے حاصل شدہ منافع کاحکم


سوال

بینک کے  منافع  استعمال کرنا جائز  ہیں  یا نہیں؟

جواب

بینک میں جو رقم اکاؤنٹ ہولڈر کی جانب سے جمع کرائی جاتی ہے، اس کی حیثیت  قرض کی ہوتی ہے،  اور قرض پر مشروط  منافع حاصل کرنا سود ہونے کی وجہ سے حرام  ہے،    بینک کی جانب سے جو اصل رقم سے زائد رقم دی جاتی  ہے، وہ لینا    اور اپنے استعمال میں لانا  جائز نہیں ، پس   اگر زائد  رقم  وصول کرلی ہے، جسے  واپس کرنا ممکن نہ ہو تو ثواب کی نیت کے بغیر غرباء اور فقراء میں صدقہ کرنا  شرعًا لازم ہوگا، اوراکاؤنٹ ہولڈر  پر لازم ہے کہ اپنا  سیونگ اکاؤنٹ، کرنٹ اکاؤنٹ میں تبدیل کروادے اور سودی اکاؤنٹ میں سودی رقم لینے اور آنے پر توبہ واستغفار بھی لازم ہے۔

'فتاوی شامی' میں ہے:

"و الحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، و إلا فإن علم عين الحرام لايحل له و يتصدق به بنية صاحبه".

  (5/ 99،مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، ط: سعید)  

النهر الفائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"هو فضل مال بلا عوض في معاوضة مال بمال.

(هو فضل مال) و لو حكمًا فدخل ربا النسيئة و البيوع الفاسدة كالبيع بشرط فإنهم جعلوها من الربا و هذا أولى من قول بعضهم المقصر تعريف الربا المتبادر عند الإطلاق و ذلك إنما هو رد الفضل (بلا عوض) خرج به ما سيأتي في الصرف من أنه لو باعه كر بر و شعير بضعفهما جاز بصرف الجنس إلى خلاف جنسه فضل قفيزي شعير على قفيز بر فإنه بعوض (في معاوضة مال) خرج به الهبة.

زاد في (الوقاية) مشروط لأحد المتعاقدين، لأنه لو شرط لغيرهما لايكون من باب الربا، و الأولى أن يقال في أحد البدلين لأن العاقد قد يكون وكيلًا و فضوليًّا و المعتبر كون الفضل للبائع أو المشتري."

(كتاب البيوع، باب الربا، 3/ 469،ط : دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511100956

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں