بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بینک یا بین الاقوامی ادارے کو زمین کرایہ پر دینا اور دلانے پر کمیشن لینا


سوال

1: بینک کو زمین کرایہ پر دینا کیسا ہے؟ نیز کسی بھی بینک کی خواہش پر اس کو زمین کرایہ پر لے کر دینا کہ وہاں وہ اپنی برانچ کھول سکےاور کرایہ پر کمیشن لیا جائے تو کیسا ہے؟

2: بین الاقوامی اداروں  کو کرایہ پر زمین لے کر دینا اور اس پر کمیشن لینا کیسا ہے، اس کی آمدنی حلال ہے؟

جواب

1: بینک  کا مدار اور اس کی بنیاد سودی نظام پر قائم ہے،سود کا لین دین گناہ کبیرہ ہے، قرآن وحدیث میں اس پر بڑی سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں،   قرآنِ کریم میں اس معاملہ کو اللہ اور اس کے رسول ﷺکے ساتھ جنگ کے مترادف قرار دیاگیاہے  اور   سودی معاملات   کرنے والے اور اس میں تعاون کرنے والوں  پر  رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے، اور بینک کو جگہ کرایہ پر دینا سودی معاملات میں معاونت کرنا ہے،  لہذا کسی بھی قسم کی بینک کو  اپنی جائیداد کرایہ پر دینا  جائز  نہیں ہے، نیز بینک کو جگہ دلاکر کمیشن لینا بھی جائز  نہیں ہے۔

2:    جس ادارے  کے بارے میں یقینی معلوم ہو کہ وہ   کرایہ پر لی ہوئی جگہ میں  ناجائز معاملات  یا حرام کام کا ارتکاب کرے گا  یا اس کی آمدنی کا ذریعہ ناجائز معاملات ہیں اور اس کی غالب آمدنی حرام کی ہے تو   ایسے ادارے کو زمین کرایہ پر دینا جائز نہیں ہے، اگر  اس کے کام ناجائز نہیں ہیں  یا جائز اور ناجائز دونوں امور ہیں  لیکن اس کی غالب آمدنی  حرام کی نہیں ہے تو جائز کام کی نیت سے ان کو جگہ کرایہ پر دینا یا  ان کو کرایہ پر دلانے پر  کمیشن لینا  جائز ہوگا۔ تاہم یہ ملحوظ رہے کہ یہ کمیشن صرف پہلی بار لینا جائز ہوگا،  ہر ماہ کے کرایہ میں سے بغیر کسی عمل اور محنت کے  کمیشن لینا جائز نہیں ہوگا۔

قرآن کریم میں ہے :

"﴿ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴾ [المائدة: 2]"

ترجمہ: "اور گناہ  اور زیادتی میں  ایک  دوسرے  کی اعانت مت کرو ، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو ، بلاشبہ  اللہ تعالیٰ  سخت سزا دینے والے ہیں۔" (از بیان القرآن)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"وقوله تعالى: [وتعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان] يأمر تعالى عباده المؤمنين بالمعاونة على فعل الخيرات وهو البر، وترك المنكرات وهو التقوى وينهاهم عن التناصر على الباطل والتعاون على المآثم والمحارم."

(سورة المائدة،الآية:2 ،10/3 ،ط: دار الكتب العلمية)

جواہر الفقہ میں ہے:

"ثم السبب ان كان سببا محركا وداعيا إلى المعصية فالتسبب فيه حرام كالإعانة على المعصبة بنص القران كقوله تعالى: " لاتسيوا الذين يدعون من دون الله "، وقوله تعالى " فلا يخضعن بالقول "، وقوله تعالى " لا تبرجن " الآية، وان لم يكن محرکا و داعيا، بل موصلا محضا، وهو مع ذلك سبب قريب بحيث لا يحتاج في اقامة المعصية به إلى احداث صنعة من الفاعل كبيع السلاح من اهل الفتنة وبيع العصير ممن يتخذه خمرا وبيع الأمرد من يعصي به وإجارة البيت ممن يبيع فيه الخمر و يتخذها كنيسة أو بيت نار و أمثالها، فكله مكروه تحريما بشرط ان يعلم به البائع والأجر من دون تصريح به باللسان، فانه إن لم يعلم كان معذورا، وإن علم كان داخلا في الإعانة المحرمة،وإن كان سببا بعيدا بحيث لا يفضي إلى المعصية على حالته الموجودة، بل يحتاج إلى إحداث صنعة فيه كبيع الحديد من اهل الفتنة وامثالها فتكره تنزيها."

(تفصيل الكلام في مسئلة الإعانة على الحرام، ج:2، ص:439 الى 453، ط: مكتبة دارالعلوم)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144610100597

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں