میرا دیور ہر سال 12 ربیع الاول اور 10 محرم کو پورے خاندان میں کھانا اور شربت بنا کر تقسیم کرتا ہے اور جب ہم کہتے ہیں کہ یہ نیاز کاہےتو وہ کہتا ہے کہ نہیں ایسے ہی بنایا ہےتو کیا یہ کھانا ہمارے لیے جائز ہے؟
یکم محرم یا بارہ ربیع الاول کو کھانا تقسیم کرنے کو لازم سمجھنا اور اس کا التزام کرنا اور اس کو دین کا جزء بنانا بدعت ہے، اس بدعت اور التزام کو ختم کرنے کے لئے نہ ان ایام میں خاص کھانا تقسیم کرنا چاہیے اور نہ ایسا کھانا قبول کرنا چاہیے، البتہ اگر ان ایام میں کہیں سے کھانا آ گیا تو اس کے کھانے کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ کھانا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے نام کی نذر و نیاز ہو تو اس کا کھانا حرام ہوگا، اور اگر وہ اللہ کے نام کی نیاز ہو اور ایصالِ ثواب مقصود ہو تو بھی چوں کہ ان ایام کو خاص کرکے کھانا یا شربت وغیرہ تقسیم کرنا التزام و اہتمام کی وجہ سے بدعت بن چکا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی ضرورت مند نہ ہو تو اس کھانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
صحيح البخاری میں ہے:
"عن عائشة رضي الله عنها قالت:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أحدث في أمرنا هذا ما ليس فيه فهو رد."
(باب: إذا اصطلحوا على صلح جور فالصلح مردود، ج: 2، ص: 959، ط: دار ابن كثير)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"واعلم أن النذر الذي يقع للأموات من أكثر العوام وما يؤخذ من الدراهم والشمع والزيت ونحوها إلى ضرائح الأولياء الكرام تقربا إليهم فهو بالإجماع باطل وحرام ما لم يقصدوا صرفها لفقراء الأنام وقد ابتلي الناس بذلك،..ولا سيما في هذه الأعصار وقد بسطه العلامة قاسم في شرح درر البحار، ولقد قال الإمام محمد: لو كانت العوام عبيدي لأعتقتهم وأسقطت ولائي وذلك لأنهم لا يهتدون فالكل بهم يتغيرون."
(كتاب الصوم، فروع في الصيام، مطلب في النذر الذي يقع للأموات، ج: 2، ص: 439، ط: سعيد)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144603102016
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن