بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

برف سے وضو کرکے نماز پڑھنے کا حکم


سوال

ہم دوست گھومنے گئےتھے عصر کی نماز کا آخری وقت تھا اور ہم سب کا وضو نہیں تھا اور ہم پہاڑ پر تھے اگر ہم وضو کرنے کےلیےنیچے اترتے تو نماز قضاء ہو جاتی تو ہم نے برف باری سے وضو کرکے نماز پڑھی تو ہمارا وضو ہوا ؟اور ہماری نماز درست ہوئی یا نہیں ؟

جواب

 صورت مسؤلہ میں  اگر   سائل اور اس کے دوستو ں  نے برف   کوپگھلا کر اس کے پانی سے  وضو  کیا  تھا ، تب تو ان کی نماز ہوگئی ، اگر برف کو پگھلایا نہیں تھا ،بلکہ محض  برف پر ہاتھ پھیر کر اس سے اعضاء   وضو پر مسح کیاتھا، تب ان کی نماز نہیں ہوئی، کیوں   کہ  وضو میں اعضاء وضو (جنہیں وضو میں دھونا فرض ہے)   پر اتنا پانی بہانا ضروری ہے کہ کم ازکم دو قطرے پانی ٹپک  جائے، نیز بر ف سے وضو اس وقت  ہی درست ہوگا ، جب اس کو پگھلا کر  اس کے پانی سے وضو کیاجائے،اگر   پانی میسر نہ ہو   اور برف پگھلانا  بھی ممکن  نہ ہو تو پا ک  مٹی یا پتھر وغیرہ   پر تمیم کرکے نماز ادا کی جائے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

”وفي شرح الطحاوي أن تسييل الماء شرط في الوضوء في ظاهر الرواية فلا يجوز الوضوء ما لم يتقاطر الماء، وعن أبي يوسف رحمه الله أن التقاطر ليس بشرط ففي مسألة الثلج إذا توضأ به إن قطر قطرتان فصاعدا يجوز إجماعا وإن كان بخلافه فهو على قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى - لا يجوز، وعلى قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - يجوز كذا في الذخيرة ،والصحيح قولهما.“

‌‌(كتاب الطهارة ،الباب الأول في الوضوء،الفصل الأول في فرائض الوضوء،ج:1،ص:3،ط: دار الفکر)

وفیہ ایضاً:

"ولا يتیمم عند وجود آلة التقوير في نهر جامد تحته ماء وقيل يتيمم وفي جمد أو ثلج ومعه آلة الذوب لايتيمم وقيل يتيمم والظاهر الأول منها كما لا يخفى. هكذا في البحر الرائق."

(كتاب الطهارة، الباب الرابع في التيمم، ج 1 ، ص : 28 ، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603103230

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں