نکاح کے وقت ہم نے لڑکی کو دو تولے سونا حق مہر کے طور پر دیا اور اس کے علاوہ کچھ سونا ہم نے لڑکی کو عارضی طور پر استعمال کے لیے دیا تھا، گفٹ کے طور پر نہیں دیا تھا، اب طلاق کے بعد لڑکی والے کہتے ہیں کہ یہ سونا بھی ہمارا ہے، سوال یہ ہے کہ جو سونا ہم نے صرف استعمال کے لیے دیا تھا اس سونے پر ہمارا حق ہے یا لڑکی کا؟
نوٹ: لڑکی اپنا مہر والا سونا لے کر جاچکی ہے، استعمال والا سونا لڑکے کے پاس ہے۔
نکاح کے بعد لڑکی کو مہر کے علاوہ جو زیورات شوہر کی طرف سے ملتے ہیں اس کی ملکیت کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر اس کے دیتے وقت شوہر نے اس بات کی صراحت کی تھی کہ یہ بطورِ عاریت یعنی صرف استعمال کرنے کے لیے ہیں تو پھر یہ زیورات لڑکے کی ملکیت ہوں گے، اور اگر شوہر نے ہبہ ، گفٹ یا مالک بناکر دینے کی صراحت کردی تھی تو پھر ان زیورات کی مالک لڑکی ہوگی، اگر اس کے دیتے وقت کوئی صراحت نہ کی ہو تو اس میں شوہر کے خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا، اگر ان کے ہاں بطورِ ملکیت دینے کا رواج ہو تو وہ بیوی کی ملکیت شمار ہوگا، اگر عاریتًا دینے کا رواج ہوتو بیوی کی ملکیت نہیں ہوگا اور اگر لڑکے والوں کے ہاں کوئی عرف نہ ہو تو عرفِ عام کا اعتبار کرتے ہوئے یہ زیور گفٹ سمجھا جائے گا اور لڑکی کی ملکیت ہوگا۔
مذکورہ تفصیل کی رُو سے اگر آپ لوگوں نے مہر کے علاوہ سونا دیتے وقت واقعۃً اس بات کی صراحت کردی تھی کہ یہ سونا لڑکی کو صرف استعمال کے لیے دیا جارہا ہے،تو وہ سونا لڑکی کی ملکیت نہیں ہے، اس لیے لڑکی والوں کو اس سونے کی واپسی کے مطالبے کا حق حاصل نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ لوگوں نے وہ سونا دیتے وقت ایسی کوئی صراحت نہ کی ہو تو پھر آپ کے خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا اور عرف نہ ہونے کی صورت میں اس سونے کو لڑکی کی ملکیت سمجھا جائے گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضاً."
(کتاب النکاح، باب المهر،3/ 153،ط: سعید)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"ثم اعلم أنه قال في الأشباه: إن العادة إنما تعتبر إذا اطردت أو غلبت، ولذا قالوا في البيع: لو باع بدراهم أو دنانير في بلد اختلف فيها النقود مع الاختلاف في المالية والزواج انصرف البيع إلى الأغلب. قال في الهداية لأنه هو المتعارف فينصرف المطلق إليه اهـ كلام الأشباه.
مطلب في دعوى الأب أن الجهاز عارية قلت: ومقتضاه أن المراد من استمرار العرف هنا غلبته، ومن الاشتراك كثرة كل منهما إذ لا نظر إلى النادر ولأن حمل الاستمرار على كل واحد من أفراد الناس في تلك البلدة لا يمكن، ويلزم عليه إحالة المسألة إذ لا شك في صدور العارية من بعض الأفراد والعادة الفاشية الغالبة في أشراف الناس وأوساطهم دفع ما زاد على المهر من الجهاز تمليكا سوى ما يكون على الزوجة ليلة الزفاف من الحلي والثياب، فإن الكثير منه أو الأكثر عارية، فلو ماتت ليلة الزفاف لم يكن للرجل أن يدعي أنه لها يلي القول فيه للأب أو الأم أنه عارية أو مستعار لها كما يعلم من قول الشارح ...والمعتمد البناء على العرف كما علمت."
(کتاب النکاح،باب المھر، مطلب في دعوى الأب أن الجهاز عاريۃ،3/ 156۔157،ط:سعید)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(هي) لغة ... إعارةالشيء قاموس. وشرعا (تمليك المنافع مجانا) ... وحكمها كونها أمانة."
(کتاب العاریة،5/ 677، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610100916
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن