میرے والد صاحب اور میرے تین چچےایک ساتھ جوائنٹ فیملی میں رہتے تھے، اس دوران میرے والد صاحب اور ایک چچا کی شادی ہو گئی تھی، جب دوسرے چچا کی شادی کا وقت آیا تو پیسے نہیں تھے تو میری دادی صاحبہ نے میرے والد سے کہا تھا کہ آپ اپنی بیوی سے سونا لے لو تاکہ ہم اس کو بیچ کر اس کی شادی کرلیں، پھر پیسے آجائے اس کو وہی سونا بناکر دے دیں گے، والد صاحب نے اپنی والدہ کے حکم کے مطابق میری والدہ سے سونا لیا، اس وقت اس سونے کی قیمت سات ہزار روپے تھی، پھر تقریباًبیس سال کے بعد میرے والد نے چچا سے اس سونے کا مطالبہ کیا چونکہ اس وقت قیمت بڑھ چکی تھی کہ اس جیسی چیز کی قیمت ساٹھ ہزار روپے بنتی تھی، اس لیے چچا نے والد صاحب کو ساٹھ ہزار روپے دے دیے تھے۔
دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ والدہ جب وہ سونا دے رہی تھی اس وقت اس کی قیمت سات ہزار روپے تھی ، وصولی کے وقت اس کی قیمت ساٹھ ہزار روپے ہونے کی وجہ سے ساٹھ ہزار روپے لینا شرعاً کیسا ہے؟ اس میں سود تو لازم نہیں آیا؟
واضح رہےسونا ، چاندی کو بطورِ قرض لینا اور دینا جائز ہے، اگر چہ واپسی کے وقت اس کی قیمت میں فرق آیا ہو۔
صورتِ مسئولہ آپ کے والد کا آپ کے چچا کو بطورِ قرض دیے ہوئے سونے کے بدلے بیس سال بعد اتنا ہی وزن کے اسی معیار (کیرٹ) کے سونے کی موجودہ بازاری قیمت کے حساب سے رقم لینا جائز ہےاس میں سود لازم نہیں آیا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"فيصح استقراض الدراهم والدنانير، وكذا كل ما يكال أو يوزن أو يعد متقارباً."
(كتاب البيوع، فصل في القرض، ج:5، ص:162، ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى)
فیه أيضاّ:
"(وما غلب فضته وذهبه فضة وذهب) ... كذا (لايصح الاستقراض بها إلا وزناً) كما مر في بابه."
(كتاب البيوع، باب الصرف، ج:5، ص:265، ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144603102180
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن