بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بطور قرض لیا ہوا سونا واپس کرتے ہوئے کس دن کی قیمت کا اعتبار ہوگا؟


سوال

ہمارے والد صاحب کا 2017 میں انتقال ہوا، والد صاحب کے 8 بیٹے ہیں،  ہر بیٹا شادی شدہ ہے، والد صاحب نے اپنی 8 بہوں سے سونا بطور  قرض لیا تھا، ہر بہو سے ساڑھے 6 تولہ سونا لیا تھا، والد صاحب نے اپنی زندگی میں 4 بہوں کو ان کا قرض ادا کردیا تھا، اب چار کو ادا کرنا باقی ہے۔

والد صاحب نے اپنی زندگی میں کہا تھا کہ میں زندگی میں ہی ان کو ان کے حصہ کا سونا دے دوں گا، اگر میرا انتقال ہوگیا تو میری وصیت کے مطابق میرے بچے، میری بہوں کو میری دُکان فروخت کرکے سونے کی رقم ادا کریں گے۔ 

سوال یہ ہے کہ چار بہووں کو ان کے گولڈ کے بجائے اس کی رقم دینی ہو تو کس حساب سے دیں گے؟ یعنی موجودہ قیمت کے اعتبار سے یا جس دن قرض لیا تھا اس دن کے حساب سےقیمت دیں؟

جواب

واضح رہے کہ سونا اگر زیورات کی صورت میں قرض لیا ہو تو  جتنے وزن کا اور  جتنے کیرٹ والا سونا  قرض لیا تھا اتنے ہی وزن اور کیرٹ کے زیورات تیار کرواکر قرض میں واپس کرنا ضروری ہے، لہذاصورتِ مسئولہ میں ہر بہو کو ساڑھے 6 تولہ سونا اسی کیرٹ کے اعتبار سے زیورات کی صورت میں واپس کرنا ضروری ہے، البتہ  اگر ورثاء رقم دینا چاہیں تو چاروں بہووں کی رضامندی سے لیے ہوئے تیار زیورات کی موجودہ قیمت ادا کی جاسکتی ہے، لیکن قیمت دینے میں ادائیگی کے دن کا اعتبار ہوگا، جس دن قرض لیا تھا اس دن کا اعتبار نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب في قولهم ‌الديون ‌تقضى بأمثالها...قد قالوا إن ‌الديون ‌تقضى بأمثالها...الخ."

(کتاب الرھن، فصل في مسائل متفرقة، ج:6، ص:525، ط: سعید)

وفيہ أيضاً :

"فإذا ‌استقرض مائة دينار من نوع فلا بد أن يوفي بدلها مائة من نوعها الموافق لها في الوزن أو يوفي بدلها وزنا لا عددا، وأما بدون ذلك فهو ربا".

(كتاب البيوع، باب الربا،مطلب في استقراض الدراھم عددا،ج:5، ص:177، ط:سعید)

العقود الدریۃ في تنقيح الفتاوى الحامدیۃ میں ہے:

"(سئل) في رجل استقرض من آخر مبلغاً من الدراهم وتصرف بها ثم غلا سعرها فهل عليه رد مثلها؟
(الجواب) : نعم ولاينظر إلى غلاء الدراهم ورخصها كما صرح به في المنح في فصل القرض مستمداً من مجمع الفتاوى".

(باب القرض، ج:1، ص279، ط: دار المعرفه)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144603100877

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں