میں ایک بیوہ خاتون ہوں،میرےشوہرکاانتقال ہوئےچھ سال گزرچکےہیں،اس شوہرسےمیرےدوبچےہیں،ایک کی عمرنوسال اوردوسرے کی آٹھ سال ہے،اب میرے لیےامریکہ سےایک رشتہ آیاہے،لڑکاپہلےسےشادی شدہ ہے،لڑکےکانام اسیدہے،اس کی عمر30سال ہے،وہ مجھ سےنکاح کی خواہش رکھتاہےاور میرے بچوں کی کفالت کرناچاہتاہے،میرےوالدین بھی اس رشتہ پرراضی ہیں،میرادل بھی مطمئن ہے،لیکن میرےساتھ مسئلہ یہ ہےکہ میرےبچوں کی وراثت جوان کوان کےمرحوم والدکی طرف سےملی ہے،وہ میرےسسرال کےپاس ہے،وہ کہتےہیں کہ جب بچےبڑےہوجائیں گے،ہم تب تمہیں حصہ حوالہ کریں گے، اس وجہ سےمیں اپنی نکاح کااعلان نہیں کرناچاہتی ہوں تاکہ میرےبچوں کاحق کہیں ضائع نہ ہوجائے۔
اب معلوم یہ کرناہےکہ میرےلیےاپنےوالدین کی سرپرستی میں اس طرح نکاح کرنےکی شرعاگنجائش ہےکہ ہم چندسال تک اس نکاح کومخفی رکھیں؟جب کہ ہمارا دل نکاح کےلیےمطمئن ہے۔
واضح رہےکہ نکاح منعقد ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ دو عاقل ،بالغ ،مسلمان مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول ہو،اگر گواہوں کی موجودگی کے بغیر کسی نے ایجاب و قبول کر لیا تو اس سے نکاح منعقد نہیں ہوتا اور دونوں میاں بیوی نہیں بن جاتے، بلکہ اجنبی ہی رہتے ہیں۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگرنکاح شرعی گواہوں کی موجودگی میں ہوتوایسانکاح شرعامنعقدہوجاتاہے،اگرسائلہ کےسابقہ شوہرکےگھروالوں کواس نکاح کاعلم نہ ہوتواس سےنکاح پرفرق نہیں پڑےگا۔
البتہ اگرسسرال والوں کواس نکاح کاعلم ہوبھی جائےتوان کےلیےبیوہ اوربچوں کومیراث سےمحروم کرناجائزنہیں ہے،اس لیےکہ شوہرکےانتقال کےبعدبیوہ کے لیےنکاح کرنااس کاشرعی اورفطری حق ہے،یہ کوئی جرم نہیں ہےکہ اس کےبدلےمرحوم کی بیوہ اور بچوں کوان کےحق سےمحروم کردیاجائے،وارث کومیراث سے محروم کرناجائزنہیں ہے۔ حدیثِ پاک میں آتاہے،’’جوکوئی شخص اپنےوارث کومیراث سےمحروم کردے،اللہ اس کوجنت میں اس کےحصےسےمحروم کردے گا‘‘۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة."
(كتاب الوصايا والفرائض ،الفصل الثالث،ج:2، ص:962،ط:الناشر: المكتب الإسلامي - بيروت)
فتح القدیر میں ہے:
"قال (ولا ينعقد نكاح المسلمين إلا بحضور شاهدين حرين عاقلين بالغين مسلمين رجلين أو رجل وامرأتين عدولا كانوا أو غير عدول أو محدودين في القذف) اعلم أن الشهادة شرط في باب النكاح لقوله صلى الله عليه وسلم "لا نكاح إلا بشهود.
(قوله ولا ينعقد نكاح المسلمين إلا بحضور إلخ) احتراز عن غير المسلمين إذ سيأتي أن أنكحة الكفار بغير الشهود صحيحة إذا كانوا يدينون بذلك. وقوله بحضور لا يوجب السماع وهو قول جماعة منهم القاضي علي السغدي، ونقل عن أبواب الأمان من السير الكبير أنه يجوز وإن لم يسمعوا، وعلى هذا جوزوه بالأصمين والنائمين، والصحيح اشتراط السماع لأنه المقصود من الحضور وسيأتي تمامه. أما اشتراط الشهادة فلقوله صلى الله عليه وسلم "لا نكاح إلا بشهود."
وفيه ايضا:
"وكلام المبسوط حيث قال: ولأن الشرط لما كان الإظهار يعتبر فيه ما هو طريق الظهور شرعا وذلك بشهادة الشاهدين فإنه مع شهادتهما لا يبقى سرا. وقول الكرخي: نكاح السر ما لم يحضره شهود، فإذا حضروا فقد أعلن قال: وسرك ما كان عند امرئ وسر الثلاثة غير الخفي صريح فيما ذكرناه.
فالتحقيق أنه لا خلاف في اشتراط الإعلان، وإنما الخلاف بعد ذلك في أن الإعلان المشترط هل يحصل بالإشهاد حتى لا يضر بعده توصيته للشهود بالكتمان إذ لا يضر بعد الإعلان التوصية بالكتمان أو لا يحصل بمجرد الإشهاد حتى يضر، فقلنا نعم وقالوا لا. ولو أعلن بدون الإشهاد لا يصح لتخلف شرط آخر وهو الإشهاد وعنده يصح. فالحاصل أن شرط الإشهاد يحصل في ضمنه الشرط الآخر، فكل إشهاد إعلان ولا ينعكس."
(كتاب النكاح، ج:3، ص:200، ط:دار الفكر)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144603103113
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن