بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بوقتِ نکاح باہمی رضامندی سے مہر کے علاوہ بطور خاص شرط الگ سے سونا مقرر کرنے کا حکم


سوال

میری بیٹی کی شادی کو چودہ سال ہوچکےہیں،25 اگست 2024 کو اس کے شوہر نے طلاق د ی،جس کا فتوی جامعہ ہذا کے دارالافتاء سے ہم نے حاصل کیا ہے،جو کہ منسلک ہے،اب پوچھنا یہ ہے کہ میری بیٹی کا حق مہر پچاس ہزار روپے طے ہوا تھا،اوربوقتِ نکاح تین تولہ سونا  بھی بطورخاص شرائط کےباہمی رضامندی سے طے ہوا تھا،تو اب یہ تین تولہ سونا لڑکے والوں کے ذمہ اداکرنا لازم ہے یا نہیں ؟نکاح نامہ بھی منسلک ہے،لڑکے والے کہہ رہے ہیں کہ ہم تین تولہ سونا دیں گے،لیکن جب لینے جائے تو وہ ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں کہ کل دےدیں گے پرسوں دےدیں گے؟براہِ کرم شرعی طور پر ہماری راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ نکاح میں  فریقین کوئی بھی جائز  شرط طے کرلے اور اس شرط پر عمل کرنے سے اللہ تعالی اور رسول اللہ ﷺ کے کسی حکم کی   خلاف ورزی کا ارتکاب نہ  ہوتا ہو، تو  ایسی شرط طے کرنے سے   نکاح پر کوئی فرق نہیں پڑتا،بلکہ نکاح منعقد اور صحیح  ہوجاتا ہے،لہذاصورتِ مسئولہ میں جب لڑکے والوں کی  باہمی رضامندی سے مہر کے علاوہ تین تولہ سونابطورِ خاص شرائط کے طے ہوا تھا ،اور نکاح نامہ میں درج بھی کیا گیا تھا،اور لڑکے والے اس کا انکار بھی نہیں کر رہے ہیں تولڑکےپر حسب شرط تین تولہ بھی ادا کرنا ضروری ہے۔

عمدة القاری میں ہے:

"عن عبد الرحمن بن غنم قال: شهدت عمر، رضي الله تعالى عنه، قضى في ‏رجل شرط لامرأته دارها، فقال: لها شرطها. فقال رجل: إذا يطلقها؟ فقال: إن ‏مقاطع الحقوق عند الشروط، والمقاطع جمع مقطع، أراد أن المواضع التي تقطع ‏الحقوق فيها عند وجود الشروط، وأراد به الشروط الواجبة فإنها يجب الوفاء ‏بها.‏ واختلف العلماء في الرجل يتزوج المرأة ويشترط لها أن لا يخرجها من دارها أو لا ‏يتزوجا عليها أو لا يتسرى أو نحو ذلك من الشروط المباحة على قولين: ‏أحدهما: أنه يلزمه الوفاء بذلك، ذكر عبد الرزاق وابن عبد المنذر عن عمر بن ‏الخطاب، رضي الله تعالى عنه، أن رجلا شرط لزوجته أن لا يخرجها، فقال ‏عمر: لها شرطها. ثم ذكرا عنه ما ذكره البخاري، وقال عمرو بن العاص: أرى ‏أن يفي لها شروطها، وروي مثلها عن طاووس وجابر بن زيد، وهو قول الأوزاعي ‏وأحمد وإسحاق، وحكاه ابن التين عن ابن مسعود والزهري، واستحسنه بعض ‏المتأخرين. والثاني: أن يؤمر الزوج بتقوى الله والوفاء بالشروط ولا يحكم عليه ‏بذلك حكما، فإن أبى إلا الخروج لها كان أحق الناس بأهله إليه ذهب عطاء ‏والشعبي وسعيد بن المسيب والنخعي والحسن وابن سيرين وربيعة وأبو الزناد ‏وقتادة، وهو قول مالك وأبي حنيفة والليث والثوري والشافعي."

(كتاب النكاح، باب الشروط في النكاح، ج:20،ص:140،ط: دار إحياء التراث العربي)

شرح المجلۃ میں ہے:

"(لا يعمل بالخط والخاتم فقط أما إذا كان سالما من شبهة التزوير والتصنيع فيكون معمولا به أي يكون مدارا للحكم ولا يحتاج للإثبات بوجه آخر)."

(الكتاب الخامس عشر في حق البينات والتحليف،الفصل الأول في بيان الحجج،المادة،1736،ص،843،ط،دارالكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"ما هو معروف بين الناس في زماننا من أن ‌البكر ‌لها ‌أشياء زائدة على المهر .... ‌وأنت ‌خبير بأن هذه المذكورات تعتبر في العرف على وجه اللزوم على أنها من جملة المهر، غير أن المهر منه ما يصرح بكونه مهرا ومنه ما يسكت عنه بناء على أنه معروف لا بد من تسليمه، بدليل أنه عند عدم إرادة تسليمه لا بد من اشتراط نفيه أو تسمية ما يقابله كما مر، فهو بمنزلة المشروط لفظا فلا يصح جعله عدة وتبرعا."

(‌‌‌‌كتاب النكاح، باب المهر، مطلب في حط المهر والإبراء منه، ج:3، ص:130، ط:سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"النكاح لا تبطله ‌الشروط ‌الفاسدة فبطل الشرط وبقي النكاح صحيحا."

(كتاب النكاح،فصل التأبيد،ج:2،ص:273، ط؛سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603101568

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں