بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

بائنانس کا شرعی حکم


سوال

بائنانس پر ہفتہ وار یا مہینہ وار ایک مقابلہ ہوتاہے "wodl"، جیتنے ولے شخص کو 5 لاکھ بائنانس پوائنٹس ملتے ہیں اوراس مقابلے میں شامل ہونے کی کوئی فیس نہیں ہوتی،میں نے "AI" کی مدد سے یہ مقابلہ جیتا ہے ،جو ہم فروخت کر کے واؤچر خرید سکتے ہیں، جس کا نام ہے "trading fee debate"،یہ واؤچر ہمیں کاروبار میں مدد کرتا ہے ،جیسے کہ 10$کا واؤچر ہے ،میرے پاس 1$ کاواؤچر ہے اور مجھے 10$ کی تجارت کرنی ہے تو یہ واؤچر 9$اپنے پاس سے دے گا مجھےاور اس کی قیمت کچھ نہیں پڑے گی مجھے ،کیا یہ حلال ہے ؟

جواب

بائنانس (binance) نامی ایپ یا کسی بھی ذریعہ سے کرپٹو کرنسیز (crypto currencies) میں کاروبار جائز نہیں ہے اور اس سے حاصل ہونے والا نفع بھی حلال نہیں ہے، لہذا صورت ِ مسئولہ میں بائنانس نامی مقابلے میں شامل ہونا ،  اس کے ذریعے تجارت کرنا اور اس سے حاصل ہونے والا نفع ناجائز اور حرام ہے۔

"تجارت کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا" میں ہے:

’’بٹ کوائن‘‘ محض ایک فرضی کرنسی ہے، اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط بالکل موجود نہیں ہیں، لہٰذا موجودہ  زمانے میں ’’کوئن‘‘ یا ’’ڈیجیٹل کرنسی‘‘ یا ’’کرپٹو کرنسی‘‘ کی خرید و فروخت کے نام سے انٹرنیٹ پر اور الیکٹرونک مارکیٹ میں جو کاروبار چل رہا ہے وہ حلال اور جائز نہیں ہے، وہ محض دھوکا ہے، اس میں حقیقت میں کوئی مادی چیز نہیں ہوتی، اور اس میں قبضہ بھی نہیں ہوتا صرف اکاؤنٹ میں کچھ عدد آجاتے ہیں، اور یہ فاریکس ٹریڈنگ کی طرح سود اور جوے کی ایک شکل ہے، اس لیے ’’بٹ کوائن‘‘ یا کسی بھی ’’ڈیجیٹل کرنسی‘‘ کے نام نہاد کاروبار میں پیسے لگانا اور خرید و فروخت میں شامل ہونا جائز نہیں ہے۔

 (ج:2،ص:92،ط:بیت العمار)

قرآن مجیدمیں ہے:

" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ " [المائدة :90]

ترجمہ :"اے ایمان والو بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں سو ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو۔"

فتاوی شامی میں ہے:

"(بطل بيع ما ليس بمال)....(والمعدوم كبيع حق التعلي) أي علو سقط؛ لأنه معدوم.(قوله: والمعدوم كبيع حق التعلي) قال في الفتح: وإذا كان السفل لرجل وعلوه لآخر فسقطا أو سقط العلو وحده فباع صاحب العلو علوه لم يجز؛ لأن المبيع حينئذ ليس إلا حق التعلي، وحق التعلي ليس بمال؛ لأن المال عين يمكن إحرازها وإمساكها ولا هو حق متعلق بالمال بل هو حق متعلق بالهواء، وليس الهواء مالا يباع والمبيع لا بد أن يكون أحدهما."

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد ، ج:5، ص:50، ط:  سعید)

وفيه أيضاً: 

"(قوله: مالا أو لا) إلخ، المراد بالمال مايمكن ادخاره لوقت الحاجة، والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم، والتقوم يثبت بها وبإباحة الانتفاع به شرعا؛ فما يباح بلا تمول لايكون مالًا كحبة حنطة وما يتمول بلا إباحة انتفاع لا يكون متقوما كالخمر، وإذا عدم الأمران لم يثبت واحد منهما كالدم بحر ملخصًا عن الكشف الكبير.

وحاصله أن المال أعم من المتمول؛ لأن المال ما يمكن ادخاره ولو غير مباح كالخمر، والمتقوم ما يمكن ادخاره مع الإباحة، فالخمر مال لا متقوم، ... وفي التلويح أيضًا من بحث القضاء: والتحقيق أن المنفعة ملك لا مال؛ لأن الملك ما من شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص، والمال ما من شأنه أن يدخر للانتفاع وقت الحاجة، والتقويم يستلزم المالية عند الإمام والملك ... وفي البحر عن الحاوي القدسي: المال اسم لغير الآدمي، خلق لمصالح الآدمي وأمكن إحرازه والتصرف فيه على وجه الاختيار، والعبد وإن كان فيه معنى المالية لكنه ليس بمال حقيقة حتى لايجوز قتله وإهلاكه."

(کتاب البیوع، ج:4، ص:501، ط:سعید)

 الفقہ الإسلامي و أدلته میں ہے:

"والمراد بالمال عند الحنفية: ما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة، والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم. و قد انتقد الأستاذ الزرقاء هذا التعريف، و استبدل به تعريفاً آخر، فقال: المال هو كل عين ذات قيمة مادية بين الناس . و عليه لاتعتبر المنافع و الحقوق المحضة ما لاً عند الحنفية."

(القسم الثالث، فصل اول، مبحث اول، مطلب اول، ج:5، ص:3305، ط: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511101425

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں