بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1446ھ 16 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بیٹے کا والد کو بغیر کسی صراحت اور معاہدہ کے گھرخریدنے میں رقم دینے کا حکم


سوال

میرے والد صاحب وفات پاچکے ہیں، ان کے ورثاء میں ایک بیوہ، چار بیٹے اوردو بیٹیاں ہیں،میرے والد صاحب کا ایک فلیٹ ہے،جو انہوں نے 2023 میں خریداتھا،جس کی کل قیمت خریدتے وقت 620000 تھی ،فلیٹ قبضہ لیتے وقت 320000 اداکرنے تھے، اور باقی رقم 300000 فلیٹ میں رہتے وقت ماہانہ قسطوں کی صورت میں 100 مہینوں میں ادا کرنے تھے،جب والد صاحب نے فلیٹ لینے کی کوشش کی تو اس وقت ایک بھائی نے 320000 والد صاحب کو بندوبست کرکے دیئے تھے، بھائی نے جب والد صاحب کو یہ رقم دی تھی تووالد صاحب اور بھائی کے درمیان کسی قسم کی صراحت اور معاہدہ پیش نہیں آیا تھااور بعد میں بھی کسی نے ذکر نہیں کیا، والدصاحب بھی فلیٹ کو اپنی ہی ملکیت سمجھتے تھے،اس کا ثبوت یہ کہ سال 2023 سے اپنی وفات سے پہلے تک فلیٹ کی مینٹیننس اور پراپرٹی ٹیکس برابری سے سارے بیٹوں سے لیا کرتے تھے اور والد صاحب زندگی میں شریعت کے مطابق بیوی بچوں میں حصہ دینا چاہتے تھے،نیزفلیٹ خریدتے وقت ہم سب بھائی بہن کنوارے تھے،ایک بھائی اور دو بہنیں 18 سال سے کم تھے اور باقی تین بھائی 26، 22، 21 سال کے تھےاور یہی تینوں بھائی مل کر گھر کے اخراجات کی رقم والد صاحب کو دیتے تھے،جس سے والد صاحب چھوٹے بھائی بہن کی پڑھائی کا خرچہ،گھر کی خانہ داری اور فلیٹ کی کی ماہانہ 3000 فلیٹ کی قسط ادا کرتے تھے،اب پوچھنا یہ ہے کہ:فلیٹ کی خریداری میں جس بھائی نے 320000 دیئے تھے ،اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ والد صاحب کی وفات کے بعد فلیٹ کی تقسیم کس طرح ہوگی؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر واقعۃ  بھائی نے  فلیٹ خریدنے کی  مد میں والد کو رقم دیتے وقت کوئی صراحت نہیں کی تھی اور نہ کوئی معاہدہ ہواتھا تو یہ رقم بھائی کی طرف سے بطور تبرع شمار ہوگی، باقی اگر تمام ورثاء اس بھائی کو باہمی رضامندی سے بطور تبرع اضافی حصہ دیتے ہیں، تو اس کی بھی گنجائش ہے۔لہذا یہ  فلیٹ مکمل والد صاحب کی ہی ملکیت تھا اور اب جب والد  وفات پاچکے ہیں تو یہ فلیٹ مرحوم والد کی تمام جائیداد منقولہ وغیرمنقولہ کے ساتھ مل کر تما م ورثاء میں شرعی طور بقدر حصص شرعیہ تقسیم ہوگا، جس کا طریقہ یہ کہ مرحوم کے حقوقِ متقدمہ   یعنی تجہیز وتکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر مرحوم پر کوئی قرضہ ہو،تو اسے اد ا کرنے کے بعد،اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہوتو اسے باقی مال کے ایک تہائی ترکہ سے نافذ کرنے کے بعد،بقیہ کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو  80حصوں میں تقسیم کرکے     10 حصے مرحوم  کی بیوہ کو ،14 حصے مرحوم کے ہر ایک  بیٹے کو،  اور7 حصے  مرحوم کی ہرا یک بیٹی  کو ملیں گے۔

صورت تقسیم یہ ہے:

مرحوم والد:8/ 80

بیوہ بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹی
17
101414141477

یعنی فیصد کے اعتبار سے12.5فیصد مرحوم کی بیوہ کو،17.5 فیصد ہر ایک بیٹے کو اور 8.75 فیصد ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:

        "المتبرع ‌لايرجع بما تبرع به على غيره، كما لو قضى دين غيره بغير أمره."

(کتاب المداینات ج: 2، ص: 226 ،ط:دار المعرفة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144607102007

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں