محلے کی ایک جامع مسجد ہے، جس کے اندرونی ہال میں آٹھ صفیں بنتی ہیں، اس کے بعد برآمدہ ہے، جس میں تین صفیں بنتی ہیں، پھر کافی لمبا چوڑا صحن ہے، جس میں تقریباً دس سے بارہ صفیں بنتی ہیں، اس صحن پر بھی مسجد کے ہال اور برآمدے کی چھت کے ساتھ ملا کر ایک ہی بڑی چھت بنا دی گئی اور اس چھت پر دوسری منزل تعمیر کی گئی یعنی اس کے اوپر ایک اور چھت ڈال کر بالائی ہال تیار کیا گیا، اب اس بالائی وسیع ہال میں مدرسہ قائم کیا گیا ہے، کثیر تعداد میں بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں، نمازوں کے اوقات میں چھٹی کر کے بچوں کو گھر بھیج دیا جاتا ہے، تاہم سمجھدار اور بڑے بچوں کو نماز پڑھنے کے لیے روک لیا جاتا ہے، چند بچے اور دو یا تین نگران اساتذہ نماز جماعت سے پڑھتے ہیں، لیکن ترتیب یہ ہے کہ نماز کی امامت و جماعت اندرونی ہال میں ہو رہی ہوتی ہے، جب کہ یہ حضرات اوپر کے اس وسیع ہال کے بائیں جانب انتہائی پچھلے حصے میں صف بنا کر کھڑے ہیں ، اصل جماعت کی صفوں اور ان طلباء اور اساتذہ کی صفوں کے درمیاں تقریباً بارہ صفوں کا فاصلہ ہے، ان بارہ صفوں کی جگہ خالی ہے، اب کیا ان طلباء اور اساتذہ کی نماز ہو جائے گی ؟
صورتِ مسئولہ میں اساتذہ اور طلباء کا مسجد کے اوپر والے حصہ میں نماز پڑھنا، جب کہ مسجد کے نیچے والے حصہ میں امام کے پیچھے صفوں میں جگہ خالی ہے، مکروہ ہے لیکن چوں کہ پوری مسجد مکانِ واحد کے حکم میں ہوتی ہے، اس لیے اس میں فاصلہ یا منزل کا اختلاف اقتداء سے مانع نہیں ہوتا،لہٰذا اساتذہ اور طلباء نے اوپر والی منزل میں جو نماز ادا کی ہیں وہ کراہت کے ساتھ ادا ہوگئی ہے، اعادے کی ضرورت نہیں ۔
فتاوی شامی میں ہے:
"ولو صلى على رفوف المسجد إن وجد في صحنه مكانا كره كقيامه في صف خلف صف فيه فرجة".
"(قوله كره) لأن فيه تركا لإكمال الصفوف. والظاهر أنه لو صلى فيه المبلغ في مثل يوم الجمعة لأجل أن يصل صوته إلى أطراف المسجد لا يكره (قوله كقيامه في صف إلخ) هل الكراهة فيه تنزيهية أو تحريمية، ويرشد إلى الثاني قوله صلى الله عليه وسلم " ومن قطعه قطعه الله".
(كتاب الصلاة، باب الإمامة، ج:1، ص:570، ط: سعيد)
وفیہ أیضاً:
"وبه علم أنه كما يكره انفراد الإمام في مكان عال بلا عذر يكره انفراد المأموم وإن وجدت طائفة مع الإمام فافهم".
(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج:1، ص:647، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144607102370
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن