میرے والد صاحب کا انتقال ہوا، ان کے ترکہ میں دوگھر ہے اور دو دکانیں ہیں، دو گھروں میں سے ایک گھر کراچی میں ہے، اور ایک گھر گاؤں میں، والد صاحب کے ورثاء میں سے دو بیٹے اور تین بیٹیاں والد صاحب کے ترکے میں موجود کراچی والے گھر کو تقسیم کا مطالبہ کر رہے ہیں، جب کہ تین بیٹے اور ہماری والدہ صاحبہ اس گھر کو تقسیم نہیں کرنا چاہتے۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ ایسی صورت میں ہمارے مطالبہ پر مذکورہ گھر کو تقسیم کیا جائے گا یا نہیں؟
واضح رہے کہ مورث کےانتقال کے بعد ان کے متروکہ جائیداد میں تمام ورثاءاپنے اپنے شرعی حصوں کے تناسب سے حقدار ہوتے ہیں، حقوقِ متقدمہ کی ادئیگی کے بعد ہر ہر وارث اپنے حصے کا مطالبہ کر سکتا ہے، نیز ورثاء میں سے کوئی بھی وارث میراث کی تقسیم کا مطالبہ کرلے تو دیگر ورثاء پر اس وارث کو اس کا شرعی حصہ ادا کرنا ضروری ہے۔
صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے بعض ورثاء میراث کی تقسیم کا مطالبہ کررہے ہیں، جب کہ بعض تقسیم سے منع کر رہے ہیں، ایسی صورت میں مرحوم کے متروکہ تمام جائیدادوں کو شرعی اعتبار سے تقسیم کر کے ہر وارث کو اس کا حق دینا ضروری ہے، بعض ورثاء کے مطالبہ کے باوجود تقسیم میں تاخیر کرنا شرعاً جائز نہیں۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإذا طلب أحد الشريكين القسمة وأبى الآخر فأمر القاضي قاسمه ليقسم بينهما."
(كتاب القسمة، ج:5، ص:231، ط:الرشیدیة)
درر الحكام في شرح مجلة الاحكام میں ہے :
"إذا طلب أحد الشريكين القسمة وامتنع الآخر عنها فيقسمه القاضي جبرا أي حكما إذا كان المال المشترك قابلا للقسمة؛ لأن القسمة هي لتكميل المنفعة والتقسيم في المال القابل للقسمة أمر لازم."
(باب في بيان القسمة، المادة 1130، ج:3، ص:128، ط:دار الجيل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604100944
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن