میرا جنرل سٹور ہے، میں ’’بازار‘‘ نام کی ایک ایپ سے خریداری کرتا ہوں، جو کیش اور ادھار دونوں پر کام کرتے ہیں، ان کا ادھار پہ کام کرنے کا طریقۂ کار یہ ہے کہ وہ 7 دن اور 14 دن کی میعاد پر ادھار دیتے ہیں، 7 دن کی فیس الگ ہے اور 14 دن کی فیس الگ ہے، اگر آپ 7 یا 14 دن کے میعاد پر ادھار مال لیتے ہیں، پھر مقرر مدت تک پیمنٹ نہیں کر پاتے تو کوئی اضافی چارجز نہیں لیتے، لیکن آپ کا ادھار بند کر دیتے ہیں، جب تک آپ پیمنٹ نہیں کردیتے آپ کا ادھار دوبارہ اوپن نہیں کرتے ، اب پوچھنا یہ ہے کہ اس معاملہ میں کہیں سود تو شامل نہیں ہورہا؟
واضح رہے کہ جمہور فقہائے کرام کی رائے کے مطابق کسی بھی چیز کی خرید و فروخت میں نقد اور ادھار کی قیمتوں میں فرق رکھنا جائز ہے، کیوں کہ ادھار کی صورت میں رقم کی زیادتی وقت کا عوض نہیں ہوتی، بلکہ وہ اضافی رقم بھی اسی چیز کا عوض ہوتی ہے، اس لیے ادھار کی صورت میں نقد رقم سے زائد رقم طے کرنا سود نہیں ہے۔
صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ بازار ایپ والے کیش اور ادھار دونوں طرح کے معاملات کرتے ہیں، اور اشیاء کی قیمت ادھار کی صورت میں کیش سے زیادہ(یعنی 7 دن کی میعاد پر الگ اور 14 دن کی میعاد پر الگ قیمت) مقرر کرتے ہیں تو اس طرح معاملہ کرنا شرعاً درست ہے، البتہ اگر ادھار کی صورت میں فیس کے عنوان سے مدت (یعنی 7 یا 14 دن)کے بدلے اشیاء کی قیمت کے علاوہ علیحدہ کوئی رقم لیتے ہیں تو یہ اضافی رقم سود شمار ہوگا اور اس طرح معاملہ کرنا شرعاًدرست نہیں ۔
البحر الرائق میں ہے:
"أن الأجل في نفسه ليس بمال فلا يقابله شيء حقيقة إذا لم يشترط زيادة الثمن بمقابلته قصدا، ويزاد في الثمن لأجله إذا ذكر الأجل بمقابلة زيادة الثمن قصدا فاعتبر مالا في المرابحة."
(كتاب البيع، شرط المرابحة والتولية، ج:6، ص:125، ط:دار الكتاب الإسلامي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604101876
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن