بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیچنے کے لیے گاڑی رکھی ہو تو کیا حج فرض ہے؟


سوال

میرا ایک ذاتی فلیٹ ہے جس میں میری اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہائش ہے۔ میری دو گاڑیاں ہیں جو کہ بیس بیس لاکھ کی ہیں۔ ان میں سے ایک میرے استعمال میں رہتی ہے اور ایک میں اپنے روزگار کے لیے بیچتا خریدتا رہتا ہوں۔ یعنی کم قیمت میں خرید کر کچھ منافع میں بیچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ جمع پونجی بالکل نہیں ہے، بلکہ اکثر چند ہزار کا مقروض رہتا ہوں۔ ایک جگہ کام کرتا ہوں جہاں سے بیس ہزار ملتے ہیں جو کہ ماہانہ اخراجات سے کم پڑ جاتے ہیں۔ اس وقت میرے پاس نقدی بالکل نہیں ہے۔ عنقریب ایام حج آرہے ہیں۔

۱۔ اگر ایام حج میں میری گاڑی بک جاۓ تو کیا مجھ پر حج فرض ہو جاۓ گا ؟

۲۔ اگر ایام حج میں میری گاڑی نہ بکے تو کیا مجھ پر حج فرض ہو جاۓ گا ؟

۳۔ اگر مجھ پر حج فرض ہو جاۓ لیکن سرکاری قرعہ اندازی میں نام نہ نکلے تو کیا فرضیت برقرار رہے گی ؟

جواب

۱)صورت مسئولہ میں    سائل  نے ایک گاڑی فروخت کرنے کی  نیت سے  لی ہے تاکہ اس کو بیچ کر اس سے نفع  کمائیں،تو  یہ  گاڑی مال تجارت میں شمار ہوگی، اور اس کی قیمت بیس لاکھ ہے، لہٰذا سائل پر حج فرض ہے،  گاڑی کا فروخت ہونا حج فرض ہونے کیلئے لازم نہیں۔(مستفاد: حج و عمرہ کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا، ج ۱، ص: ۲۵۵)

۲) اگر مذکورہ گاڑی بیچ کے حج پر جا سکتا ہے تو بہتر، ورنہ قرض لے کر  حج پر چلا جائے، اور بعد میں گاڑی فروخت کر کے قرض ادا کردے۔

غنیۃ الناسک میں ہے:

"من جاء وقت خروج أهل بلده لأشهر الحج وقد استكمل سائر  شرائط الوجوب و الأداء, وجب عليه الحج من عامه. ووجب أدائه بنفسه  فيلزمه  التأهب و الخروج معهم فلو لم يحج حتي مات فعليه الإيصاء به ... وكذا لو لم يحج حتي افتقر تقرر وجوبه دينا في ذمته بالإتفاق ولا يسقط عنه بالفقر سواء هلك المال أو استهلكه و وسعه أن يستقرض و يحج وان كان غير قادر علی قضائه."

(غنیۃ الناسک، ص: ۳۲، ۳۳، باب شرائط الحج، فصل: فیما اذا وجد شرائط الوجوب و الأداء أو الوجوب فقط، ط: ادارۃ القرآن)

ہندیہ میں ہے:

"إذا أراد الرجل أن يحج بمال حلال فيه شبهة فإنه يستدين للحج ويقضي دينه من ماله كذا في فتاوى قاضي خان في المقطعات."

(الفتاوى الهندية, (1/ 220))

۳) اگر سائل پر حج فرض ہو جائے، لیکن سرکاری اسکیم کی قرعہ اندازی میں نام نہ  آئے تو اگر اس وقت پرائیوٹ اسکیم میں جانے کی استطاعت ہو (اس طور پر کہ حج کے مکمل اخراجات نکالنے کے بعد بھی اتنی رقم بچتی ہو جس سے واپس آنے تک  اہل و عیال کا گزر بسر ہوسکے) تو اسی سال پرائیوٹ اسکیم سے   حج کرلے، ورنہ اگلے سال حج کرلے، بہرحال ایک مرتبہ حج فرض ہو جانے کے بعد ذمہ سے ساقط نہیں ہوتا، بلکہ جب تک ادا نہ کرلے ذمہ میں باقی رہتا ہے۔اور اگر زندگی میں حج کرنا ممکن نہ ہوا تو حج بدل کی وصیت کر کے جائے۔

ہندیہ میں ہے:

"قال بعض العلماء: إن كان الرجل تاجرا يعيش بالتجارة فملك مالا مقدار ما لو رفع منه الزاد والراحلة لذهابه، وإيابه ونفقة أولاده وعياله من وقت خروجه إلى وقت رجوعه ويبقى له بعد رجوعه رأس مال التجارة التي كان يتجر بها كان عليه الحج، وإلا فلا، وإن كان محترفا يشترط لوجوب الحج أن يملك الزاد والراحلة ذهابا، وإيابا ونفقة عياله، وأولاده من وقت خروجه إلى رجوعه ويبقى له آلات حرفته، وإن ‌كان ‌صاحب ‌ضيعة إن كان له من الضياع ما لو باع مقدار ما يكفي الزاد والراحلة ذاهبا وجائيا ونفقة عياله، وأولاده ويبقى له من الضيعة قدر ما يعيش بغلة الباقي يفترض عليه الحج، وإلا فلا."

 (1/ 218)،(كتاب المناسك)، ‌‌[الباب الأول في تفسير الحج وفرضيته ووقته وشرائطه وأركانه]، ط: دار الفکر)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"لو ملك ما به الاستطاعة حال كفره ثم أسلم بعد ما افتقر لايجب عليه شيء بتلك الاستطاعة بخلاف ما لو ملكه مسلما فلم يحج حتى افتقر حيث يتقرر الحج في ذمته دينا عليه كذا في فتح القدير."

 (1/ 216)، (كتاب المناسك)،الباب الأول في تفسير الحج، وفرضيته ووقته وشرائطه، وأركانه، ط: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100446

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں