بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بیع باالشرط کا حکم


سوال

میں کمپنی سے ایک گاڑی قسطوں پر خریدنا چاہتا ہوں جس کی مالیت 65 لاکھ روپے ہے  کمپنی تیسرے شخص سے وہ گاڑی  65 لاکھ میں نقد خرید کر   مثلاً 70 لاکھ میں یعنی5 لاکھ نفع متعین کرکے  مجھے فروخت کرہی ہے (1)تو آیا کمپنی کا اس طرح منافع لینا جائز ہے یا نہیں؟(2) یہ جو گاڑی میں لے رہا ہوں ابھی تک کمپنی کی ملکیت میں نہیں آئی ہے، کمپنی والے کہہ رہے ہیں کہ آپ گاڑی چیک کریں جو خرابی ہوگی اس کے ہم ذمہ دار ہوں گے، ہر قسم کی ذمہ داری کمپنی کی ہوگی، البتہ جو گاڑی کمپنی مجھے بیچ رہی ہے وہ کمپنی کی ملکیت میں ابھی تک نہیں ہے، تو کیا ایسا سودا کرنا جائز ہے یا نہیں؟ نیز اس کی جائز صورت کیا ہوگی؟(3) جو گاڑی میں کمپنی سے خریدنا چاہ رہا ہوں، کمپنی والے کہہ رہے ہیں کہ وہ گاڑی ہم تیسرے شخص سے خرید لیں گے لیکن آپ ہمیں ایڈوانس میں 20 فیصد رقم دیں گے، اگر بالفرض مشتری انکاری ہو جائے تو جو 20 فیصد رقم اس نے ایڈوانس میں کمپنی کو ادا کیے ہیں وہ مشتری کو واپس نہیں ملیں گے، تو اس کا کیا حکم ہے؟ البتہ قسط کی تاخیر کرنے پر اضافی کوئی جرمانہ کمپنی لازم نہیں کرتی ہے۔

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے بیع کے صحیح ہونے کے لیے کچھ اصول و قواعد مقرر کیے ہیں، جہاں ان کی رعایت کی جائے، وہاں بیع درست ہوگی، اور جس بیع میں ان کی رعایت نہ کی جائے، وہ بیع جائز نہیں ہوگی۔ 

(1)صورت مسئولہ میں  کمپنی جو تیسرے شخص سے گاڑی لے کر  سائل  کو قسطوں پر 5 لاکھ نفع کرکے   فروخت کرہی ہے، تو  کمپنی کے لیے   اس طرح قسطوں میں  خریدو فروخت کرکےمنافع لینا چند شرائط کے ساتھ  جائزہے ۔

1۔قسط کی رقم متعین ہو

2۔ مدت متعین ہو۔

3۔معاملہ متعین ہو کہ نقد کا معاملہ کیا جارہا ہے یا ادھار۔

4۔  اور عقد کے وقت مجموعی قیمت مقرر ہو۔

5۔اور ایک شرط یہ بھی  ہے کہ کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں اس  میں اضافہ (جرمانہ) وصول نہ کیا جائے ، اگر بوقتِ عقد یہ شرط ہوگی تو پورا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا،

(2) بیع کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ بیع کےوقت مبیعہ  بائع کی ملکیت اور قبضہ میں موجود ہو ،ورنہ  بیع جائز نہیں ہوگی، کیوں کہ  شریعت میں بیع قبل القبض جائز نہیں ہے،لہذا مذکورہ صورت میں  اگر  وہ   گاڑی کمپنی  کی ملکیت میں نہیں ہے  اور کمپنی  اس کو خریدنے  سے پہلے  ہی سائل کو فروخت کر رہی ہے، تو اس طرح سودا کرنا جائز نہیں ہے  ، اس کی جائز صورت یہ ہوگی کہ کمپنی پہلے خود گاڑی خرید لے، اور قبضہ حاصل کرے،پھر  سائل سے نیا سودا کرکے قسطوں پر قیمت طے کرے، اس صورت میں یہ  بیع درست ہوگا،یا پھر وعدہ بیع کرے یعنی فی الحال خریدو فروخت  کا معاملہ نہ کرے،  بلکہ مقررہ مدت تک  بیع  کا وعدہ کرے،تو  اس صورت میں بیع جائز  ہوگی ۔

(3)اگر خریدار (مشتری) گاڑی نہ لے تو کمپنی ایڈوانس میں دی گئی رقم واپس نہ کرنے کی جو شرط لگا رہی ہے، وہ شرط فاسد (شرعاً ناجائز) ہے، اور ایسی فاسد شرط کی وجہ سے بیع (خرید و فروخت کا معاملہ) بھی فاسد ہو جاتی ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

 

"(قوله: كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر....الخ"

(کتاب البیوع،باب المرابحۃ والتولیۃ،فصل فی القرض، مطلب کل قرض جر نفعاً حرام،ج:5،ص:166،ط:سعید)

سنن ابوداؤد ہے :

"عن حكيم بن حزام، قال: يا رسول الله، يأتيني الرجل فيريد مني البيع ليس عندي، أفأبتاعه له من السوق؟ فقال: "لا تبع ما ليس عندك."

(باب فی الرجل یبیع مالیس عندہ،ج:5،ص:342،ط:دارالرسالۃ العالمی)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(لا) يصح ... (بيع منقول) قبل قبضه ولو من بائعه ... والأصل أن كل عوض ملك بعقد ينفسخ بهلاكه قبل قبضه فالتصرف فيه غير جائز ... وفي المواهب: وفسد بيع المنقول قبل قبضه، انتهى. ونفي الصحة يحتملهما ... (قوله: ونفي الصحة) أي الواقع في المتن يحتملهما أي يحتمل البطلان والفساد والظاهر الثاني؛ لأن علة الفساد الغرر كما مر مع وجود ركني البيع، وكثيراً ما يطلق الباطل على الفاسد أفاده ط."

(کتاب البیوع، باب المرابحة و التولیة، فصل في التصرف في المبیع،ج:5 ،ص:147،ط:سعید)

ہدایہ شرح بنایہ میں ہے :

"وكل شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين أو للمعقود عليه وهو من أهل الاستحقاق يفسده كشرط أن لا يبيع المشتري العبد المبيع لأن فيه زيادة عارية عن العوض فيؤدي إلى الربا أو لأنه يقع بسببه المنازعة فيعري العقد عن مقصوده."

(كتاب البيوع،‌‌باب البيع الفاسد،ج:3، ص:48،ط: سعید)

فقط وللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610100207

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں