1.کسی بھی بہن کا اپنے بھائیوں کے حق میں اپنے باپ کی میراث سے دستبردار ہونے کا شرعی طریقہ کیا ہے ؟
2.کوئی بہن کسی بھی صورت میں لکھ کردےدے کہ میں اپنے باپ کی میراث لینے سے دستبردار ہوں تو کیا یہ دستبرداری معتبر ہوگی یا نہیں ؟
3.جو شخص اپنی بہنوں کو اپنے باپ کی میراث سے حق نہیں دیتاتو کیاایسا شخص مستقل بنیادوں پر امامت و خطابت کے فرائض انجام دے سکتاہے؟نیز یہ بھی واضح فرمادیں کہ ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کے ترکہ میں اس کے تمام ورثاء کا حق متعلق ہوجاتاہے اور کسی وارث کو اس کاحصہ نہ دینا اور محروم کرنا شرعاً جائز نہیں ہوتا،وارث کو اس کے حصۂ میراث سے محروم کرنے اور اس کا حق دبالینے پر احادیث مبارکہ میں بڑی وعیدیں آئی ہیں:
’’حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص( کسی کی ) بالشت بھر زمین بھی از راہِ ظلم لے گا،قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین اس کے گلے میں طوق کے طور پرڈالی جائے گی‘‘، ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے: ’’حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا(یعنی اسے جنت سے محروم کردے گا)۔‘‘
مذکورہ تمہید کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:
1.میراث ایک جبری حق ہے جو شرعا ورثاء کو دیاگیا ہے،اگر کوئی وارث یہ کہے کہ میں اپنا حصہ نہیں لیتا تواس کے صرف اتنا کہنے سے اس کاحق ختم نہیں ہوتا،شرعا اپنا حصہ لینا ضروری ہے، ہاں حصہ لینے کے بعد کوئی وارث(مثلا بہن ) اپنا حصہ دوسرے وارث(مثلا بھائی) کو اپنی خوشی سے قبضہ کےساتھ دےدے تو یہ اس کی طرف سے ہدیہ اور تبرع ہوگا ،اس صورت میں جس کو بھی یہ ہدیہ کیا ہو گا وہ اس کا مالک بن جائے گا۔
2.بہن کا یہ لکھ کر دینا کہ ’’میں اپنے باپ کی میراث سے دستبردار ہوں ‘‘، یہ دست برداری شرعاً معتبر نہیں ہے،اس سے بہن کا میراث کا حصہ و حق ختم نہیں ہوگا۔
3. مذکورہ تمہید سے معلوم ہوچکا کہ بہنوں کو میراث کا حصہ نہ دینا گناہِ کبیرہ ہے ،ایسا شخص شرعاً فاسق ہے ،لہذا اگروہ اپنےاس فعل سے توبہ نہیں کرتا اور بہنوں کو میراث کا حصہ نہیں دیتا اور نہ ہی دینے کا ارادہ ہوتو ایسا کرنا غصب ہے۔ ایسے شخص کو مستقل امام وخطیب مقرر نہیں کرنا چاہئے،لیکن کسی جگہ پر اگر ایسا شخص جماعت کی امامت کرواتا ہے تو اس کے پیچھے نماز اداہوجائےگی اور جماعت کا ثواب مل جائےگا،البتہ متقی صحیح العقیدۃ امام کے پیچھے نماز پڑھنے سے جتنا ثواب ملتا ہے ،اتنا ثواب نہیں ملے گا ۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين."
(مشكاة المصابيح، باب الغصب والعاریة،1 /254، ط: قدیمی)
وفيها أیضاً:
"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة. رواه ابن ماجه."
(باب الوصایا، الفصل الثالث،1 /266، ط: قدیمی)
الاشباہ والنظائر میں ہے:
"لو قال الوارث: تركت حقي لم يبطل حقه؛ إذ الملك لا يبطل بالترك."
(الفن الثالث الجمع والفرق،ما یقبل الإسقاط من الحقوق:272 ،ط:دارالکتب العلمیة)
فتاوی شامی میں ہے:
"الإرث جبري لا يسقط بالإسقاط."
(مطلب : واقعة الفتوی ،7/ 505،ط:دارالفکر)
وفیه أیضا:
"ولو قال تركت حقي من الميراث أو برئت منها ومن حصتي لا يصح وهو على حقه لأن الإرث جبري لا يصح تركه."
(كتاب الدعوى ،باب دعوی النسب:8/ 89،ط:دارالفکر)
وفیه أیضا:
"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل .... (في) متعلق بتتم (محوز) مفرغ (مقسوم ومشاع لا) يبقى منتفعا به بعد أن (يقسم) كبيت وحمام صغيرين لأنها (لا) تتم بالقبض (فيما يقسم."
(كتاب الهبة:5/ 690،ط:سعيد)
البحر الرائق میں ہے:
"(قوله: وكره إمامة العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع والأعمى وولد الزنا) بيان للشيئين الصحة والكراهةأما الصحة فمبنية على وجود الأهلية للصلاة مع أداء الأركان وهما موجودان من غير نقص في الشرائط والأركان ... وأطلق المصنف في المبتدع فشمل كل مبتدع هو من أهل قبلتنا، وقيده في المحيط والخلاصة والمجتبى وغيرها بأن لاتكون بدعته تكفره فإن كانت تكفره فالصلاة خلفه لاتجوز، وعبارة الخلاصة هكذا، وفي الأصل: الاقتداء بأهل الأهواء جائز إلا الجهمية والقدرية والروافض الغالي ومن يقول بخلق القرآن والخطابية والمشبهة.
وجملته أن من كان من أهل قبلتنا ولم يغل في هواه حتى يحكم بكفره تجوز الصلاة خلفه وتكره ولا تجوز الصلاة خلف من ينكر شفاعة النبي أو ينكر الكرام الكاتبين أو ينكر الرؤية لأنه كافر."
(كتاب الصلاة، باب الإمامة ،1/ 370،ط: دار المعرفة، بيروت)
فتاوى هنديه میں ہے:
"قال المرغيناني: تجوز الصلاة خلف صاحب هوى وبدعة ولا تجوز خلف الرافضي والجهمي والقدري والمشبهة ومن يقول بخلق القرآن وحاصله إن كان هوى لا يكفر به صاحبه تجوز الصلاة خلفه مع الكراهة وإلا فلا. هكذا في التبيين والخلاصة وهو الصحيح."
(كتاب الصلاة، الباب الخامس في الإمامة، الفصل الثالث في بيان من يصلح إماما لغيره ،1/ 84،ط: رشيديه)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: نال فضل الجماعة) أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد لكن لاينال كما ينال خلف تقي ورع."
(كتاب الصلاة، باب الإمامة ،1/ 562،ط. سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144606102546
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن