بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

بہنوں کاحصہ متعین کرنے کے بعد جائیداد کی قیمت بڑھ جانا


سوال

ہم دو بھائیوں نے مل  کر ایک پلاٹ  2015 میں خریدا تھا، اور یہ پیسے ،والد صاحب کا ایک مکان جس میں ہم سب ساتھ رہتے تھے ، والد صاحب کے انتقال کے بعد فروخت کردیا ،اس سے حاصل ہوئے تھے،اوریہ بات  باہمی مشورے سے   طے ہوئی تھی، ہماری تین بہنیں ہیں ، ان تین بہنوں کو ہم دونوں بھائی اپنا اپنا حصہ دے دیں گے۔ 2017  میں میں نے اپنی ایک دوکان فروخت کرکے اس وقت اس پلاٹ کی قیمت 2900000 روپے تھی دونوں بھائیوں  نے بہنوں کا حصہ متعین کرکے ادائیگی کا معاہدہ کیا تھا اور بہنیں اس پر راضی بھی ہوگئیں تھیں ،اس کے حساب سے میرے  اوپر       ایک بہن  کا حصہ 158000 اور کچھ پیسے بنے ،میں نے تینوں بہنوں کو  ایک لاکھ روپے دے دئے ، او ربقایا  رقم سب کے سامنے یہ طے کیا کہ یہ بقایا رقم    میرے اوپر قرض ہے ، جیسے ہی  میرے    پاس پیسے آئیں گے وہ پیسے میں تم لوگوں کو دے دوں گا۔بہنیں میری  ا س پر راضی          ہوگئیں،اور 2021 میں دو بہنوں کو بقایا رقم میں سے 30000 دے  دیے۔

دوسری بات  یہ ہے کہ   میرے چھوٹے بھائی نے میری تینوں بہنوں کو اس وقت کوئی رقم نہیں دی،جب کہ میں نے اس سے کہا کہ تم بھی اسی وقت 2900000 کے حساب سے ان  کا حصہ دو ،ورنہ بعد میں  موجودہ قیمت کے لحاظ سے دینے ہوں گے ، اس نے کہا میں بعد میں دوں گا، ابھی 2021 میں میرے چھوٹے بھائی نے 2900000 کے ہی حساب سے دو بہنوں کو پیسے دیے ہیں ، جب کہ اس وقت پلاٹ کی قیمت 9000000 ہیں۔

1۔میر ےچھوٹے بھائی نے 2900000 کے حساب سے جو رقم ادا کی ہے، کیا  یہ درست ہے؟

2۔کیامیری تینوں بہنیں  موجودہ قیمت کے لحاظ سے اپنے چھوٹے بھائی سے رقم کا مطالبہ کرسکتی ہیں؟

3۔کیا حصے کی کوئی رقم ادا کیے بغیر یہ کہا جاسکتاہےکہ یہ رقم   بقایا ہے  اور یہی رقم ملے گی؟

جواب

سوال کئی شقوں پر مشتمل  ہے،  ہر  ایک کا  جواب  نمبر وار  درج ذیل ہے:

1 ۔صورتِ مسئولہ میں سائل اور ان کے بھائی نے والدمرحوم  کے فروخت شدہ  مکان کے پیسوں  سے  جو پلاٹ خریدا  تھااس میں تمام ورثاء کا شرعی حصہ  تھا ، اور2017  میں مذکورہ پلاٹ   کی قیمت جب متعین کی تھی اور  ہر بہن کا حصہ معلوم ہوگیا تھا، اور بہنوں نے  اپنے اس  متعین حصے کے  لینے پر رضامندی ظاہر  کردی تھی، تو اب  سائل اور  اس کے  چھوٹے بھائی کے ذمے بہنوں کو  2900000  کے  حساب سے ان کا متعین حصہ دینا ضروری ہے اور بہنوں کے لیے اس سے زائد کا مطالبہ شرعًا درست نہیں ہے ۔

2۔ سابقہ تفصیل کی رو سے بہنوں کےلیے اپنے چھوٹے بھائی سے پلاٹ کی   موجودہ قیمت (9000000)کے حساب سے حصے کا مطالبہ کرنا شرعًا درست نہیں ۔

3۔جب تمام ورثاء کی رضامندی سے کسی وارث کا حصہمتعین ہوجائے تو اس کا حق وہی متعین حصہ بنتا ہے ،اگرچہ ادائیگی میں تاخیر ہوجائے۔

فتاوی تنقیح الحامدیہ میں ہے:

(سئل) في رجل استقرض من آخر مبلغاً من الدراهم وتصرف بها ثم غلا سعرها فهل عليه رد مثلها؟

(الجواب) : نعم ولاينظر إلى غلاء الدراهم ورخصها كما صرح به في المنح في فصل القرض مستمداً من مجمع الفتاوى.

(العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (1/ 279)

و فیه أیضًا:

الديون تقضى بأمثالها"

(العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (2/ 227)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

إذا كانت التركة بين ورثة فأخرجوا أحدهما منها بمال أعطوه إياه والتركة عقار أو عروض صح قليلا كان ما أعطوه أو كثيرا وإن كانت التركة ذهبا فأعطوه فضة أو كانت فضة فأعطوه ذهبا فهو كذلك لأنه بيع الجنس بخلاف الجنس

(الفتاوى الهندية (4/ 268)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100605

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں