بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 ذو الحجة 1445ھ 04 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیل کا عضو مخصوص دوا میں استعمال کرنا


سوال

 کیا بیل کا عضوِ مخصوص دوا میں استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں؟ ہمارے نسخہ جات میں ہے اور اس کا بدل بھی نہیں ہے؟

جواب

بیل کا عضو مخصوص جانور کے حرام اجزاء میں سے ہے، اس کا  خوردنی استعمال بطورِ غذا ہو یا بطورِ علاج،  مکروہِ تحریمی (ناجائز) ہے،  البتہ اگر   کسی بھی طب میں اس کے علاوہ بیماری کا کوئی اور علاج نہ ہو، اور اس میں شفا کا تجربہ کی بنیاد پر غالب گمان ہو اور  ماہر مسلمان باعمل  طبیب  کی رائے اس کے استعمال کی ہو اور مرض مہلک یا شدید موذی ہو تو اس صورت میں حرام سے بھی علاج کی گنجائش ہوگی۔

لیکن اگر بیماری کا کوئی اور علاج موجود ہو، لیکن صرف کسی طبی نسخہ جات میں  بیل کے عضو مخصوص کا  بدل نہ ہو تو صرف اس لیے اس حرام چیز کو  طبی نسخہ میں شامل کرنا جائز نہیں ہوگا۔

البتہ اگر مذکورہ نسخہ کا استعمال داخلی نہ ہو، بلکہ خارجی ہو، یعنی انسانی جسم کے بیرونی حصہ پر لگانے کے لیے کارآمد ہو  اور اس جانور کو شرعی طریقہ سے ذبح کیا گیا ہو تو چوں کہ ذبح سے اس کا عضو پاک ہوجائے گا، اس لیے اس کا خارجی استعمال کے نسخہ میں استعمال کرنا جائز ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 210):

"مطلب في التداوي بالمحرم

(قوله: اختلف في التداوي بالمحرم) ففي النهاية عن الذخيرة يجوز إن علم فيه شفاء ولم يعلم دواء آخر. وفي الخانية في معنى قوله عليه الصلاة والسلام: «إن الله لم يجعل شفاءكم فيما حرم عليكم» كما رواه البخاري أن ما فيه شفاء لا بأس به كما يحل الخمر للعطشان في الضرورة، وكذا اختاره صاحب الهداية في التجنيس فقال: لو رعف فكتب الفاتحة بالدم على جبهته وأنفه جاز للاستشفاء، وبالبول أيضا إن علم فيه شفاء لا بأس به، لكن لم ينقل وهذا؛ لأن الحرمة ساقطة عند الاستشفاء كحل الخمر والميتة للعطشان والجائع. اهـ من البحر. وأفاد سيدي عبد الغني أنه لا يظهر الاختلاف في كلامهم لاتفاقهم على الجواز للضرورة، واشتراط صاحب النهاية العلم لا ينافيه اشتراط من بعده الشفاء ولذا قال والدي في شرح الدرر: إن قوله: لا للتداوي محمول على المظنون وإلا فجوازه باليقيني اتفاق كما صرح به في المصفى. اهـ.

أقول: وهو ظاهر موافق لما مر في الاستدلال، لقول الإمام: لكن قد علمت أن قول الأطباء لايحصل به العلم. والظاهر أن التجربة يحصل بها غلبة الظن دون اليقين إلا أن يريدوا بالعلم غلبة الظن وهو شائع في كلامهم تأمل (قوله: وظاهر المذهب المنع) محمول على المظنون كما علمته (قوله: لكن نقل المصنف إلخ) مفعول نقل قوله: وقيل: يرخص إلخ والاستدراك على إطلاق المنع، وإذا قيد بالمظنون فلا استدراك. ونص ما في الحاوي القدسي: إذا سال الدم من أنف إنسان ولاينقطع حتى يخشى عليه الموت وقد علم أنه لو كتب فاتحة الكتاب أو الإخلاص بذلك الدم على جبهته ينقطع فلا يرخص له فيه؛ وقيل: يرخص كما رخص في شرب الخمر للعطشان وأكل الميتة في المخمصة وهو الفتوى. اهـ (قوله:  ولم يعلم دواء آخر) هذا المصرح به في عبارة النهاية كما مر وليس في عبارة الحاوي، إلا أنه يفاد من قوله كما رخص إلخ؛ لأن حل الخمر والميتة حيث لم يوجد ما يقوم مقامهما أفاده ط. قال: ونقل الحموي أن لحم الخنزير لا يجوز التداوي به وإن تعين، والله تعالى أعلم."

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144202201173

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں