بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

بیرون ملک میں سودی قرضہ لینا


سوال

میں 2017 سے کینیڈا میں کرایہ کے گھرمیں اپنی فیملی کے ساتھ رہائش پذیر ہوں ، میں تین بہنوں کا  ایک ہی بھائی ہوں، میں اکیلا پورے گھر کا خرچہ اٹھاتا ہوں،جاب کرتا ہوں اور  میری ساری  آمدنی ایک ماہ کے اندر گھر کےکرایہ اور کھانے پینے میں ختم ہو جاتی ہے، اتنی رقم بھی نہیں بچتی ہے کہ کئی سالوں تک جمع کرکے  میں اپنا ذاتی گھر خرید لوں ، جاب کرتے ہوئے ذاتی گھر لینا نا ممکن بات ہے، میں اپنی مجبوریوں کو دیکھتے ہوئے دل میں خواہش کرتا ہوں کہ صرف ذاتی گھر کے حصول کے لئے بینک سے قرضہ لے لوں، لیکن یہاں کینیڈا میں تمام  بینک ، قرضہ تھوڑے سے عوض کے سود پر دیتے ہے، اس کے علاوہ اور راستہ ہی نہیں،  یہاں پر اکثر مسلمانوں نےذاتی گھر کے حصول کے لئے بینکوں سے قرض لیا ہے ۔

آپ سے گزارش ہے میرے لیے شرعی فیصلہ جواب تحریر فرمائیں، کیا شریعت میں اس کی اجازت ملنے کے امکانات ہیں؟ میں نے اکثر لوگوں سے صرف سنا ہے کہ پاکستان کے ایک بڑے مفتی صاحب  نے باہر ملکوں میں رہنے والوں کےلیے  اجازت دی ہے کیا یہ بات درست ہے؟

جواب

سود کا لین دین شرعاً ا س قدر قبیح اور ناپسندیدہ ہے کہ اسے اللہ اور اس کے رسول ﷺکے ساتھ اعلان جنگ قرار دیاگیا ہے،نیز سود کا انجام تباہی اور بربادی ہی ہے، سودی معاملے کی سنگینی کا اندازا  اس سے لگایا جائے کہ اس گناہ کا اثر صرف براہِ راست سودی معاملہ کرنے والے دو اشخاص تک محدود نہیں رہتا، بلکہ اس سے متعلقہ افراد (جو کسی بھی طرح اس سودی معاملہ میں معاون بنتے ہیں، مثلاً: لکھنے والا، گواہ، وغیرہ) وہ سب اللہ کی لعنت اور اس کی رحمت سے دوری کے مستحق بن جاتے ہیں،    خلاصہ یہ کہ سودی معاملہ اور سودی لین دین قرآن وحدیث کی رو سے حرام ہے، نیز اسلام میں جس طرح سود لینا حرام وناجائز ہے، اسی طرح سود دینا بھی حرام وناجائز ہے اور احادیثِ  مبارکہ میں دونوں پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں، سودی معاملہ دنیا اور آخرت  کی تباہی اور بربادی، ذلت اور رسوائی کا سبب ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔

بینک سے قرض لے کر جو اضافی رقم دی جاتی ہے چاہے وہ تھوڑی ہو یا زیادہ ہو ،وہ سود ہے، جس کا لینا  اور دینا شرعاً ناجائز اور حرام ہے، قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں سودی معاملات کرنے والوں کے لیے سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں؛ اس لیے اس سے احتراز لازم اور ضروری ہے، لہذا  کسی  بھی بینک سے  قرضہ لے کر گھر خریدنے  کی صورت میں سود کا معاہدہ کرنا پڑتا ہے،  خواہ  وہ کسی دوسرے نام سےہی کیوں نہ  کیا جاتا ہو،شرعاً اس معاملے کے تحت قرضہ لے کر گھر خریدنا حرام ہے۔ 

لہذا صورتِ مسئولہ میں   سودی قرضہ لینا شرعاً جائز  نہیں ۔

قرآنِ کریم میں ہے:

﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا الله َ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ أَمْوَالِكُمْ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ وَإِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَة إِلٰى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْر لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ [البقرة : 278]

"ترجمہ: اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایاہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگرتم نہ کرو گے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے. اور اگر تم توبہ کرلوگے تو تم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے، نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ تم پر ظلم کرنے پائے گا، اور اگر تنگ دست ہو تو مہلت دینے کا حکم ہے آسودگی تک اور یہ کہ معاف ہی کردو  زیادہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم کو خبر ہو۔ (بیان القرآن )"

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"(وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الربا) أي إثمه (سبعون جزءًا) أي بابًا أو حوبًا كما جاء بهما الرواية (أيسرها) أي أهون السبعين (إثما) وأدناها كما في رواية (أن ينكح الرجل أمه) أي يطأها وفي رواية: " «الربا ثلاثة وسبعون بابا أيسرها مثل أن ينكح الرجل أمه، وإن أربى الربا عرض الرجل المسلم» " رواه مالك عن ابن مسعود. رواية: " «الربا اثنان وسبعون بابا أدناها مثل إتيان الرجل أمه، وإن أربى الربا استطالة الرجل في عرض أخيه» " رواه والطبراني في الأوسط عن البراء. ففي الحديثين دلالة على أن وجه زيادة الربا على معصية الزنا إنما هو لتعلق حقوق العباد إذ الغالب أن الزنا لا يكون إلا برضا الزانية ولذا قدمها الله - تعالى - في قوله - تعالى - {الزانية والزاني} [النور: 2] وإلا فأي عرض يكون فوق هتك الحرمة ومرتبة القذف بالزنا دون معصية الزنا والله - تعالى - أعلم

’’وعن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «إن الربا وإن كثر فإن عاقبته تصير إلى قل» " رواها ابن ماجه، والبيهقي في شعب الإيمان وروى أحمد الأخير.

(وعن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الربا) أي ماله (وإن كثر) أي صورة وعاجلة (فإن عاقبته) أي آجلته وحقيقته (تصير) أي ترجع وتئول (إلى قل) بضم قاف وتشديد لام: فقر وذل. قال الطيبي - رحمه الله: القل والقلة كالذل والذلة يعني أنه ممحوق البركة (رواهما) أي الحديثين جميعا (ابن ماجه) أي في سننه (والبيهقي في شعب الإيمان وروى أحمد) أي وكذا الحاكم (الأخير) أي الحديث الآخر منهما".

(کتاب البیوع، باب الربا، ج: 5، ص :2925، ط:  دار الفكر، بيروت - لبنان)

حدیث مبارک میں ہے:

"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ» ، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»".

(الصحیح لمسلم، ص:1219، ج:3، کتاب المساقات،دار احیاء التراث، بیروت)

      مشكاة المصابيح  میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الربا سبعون جزءًا أيسرها أن ینکح الرجل أمه».

(مشکاۃ المصابیح، باب الربوا، ص: 246، ج: 1، ط: قدیمی)

اعلاء السنن میں ہے:

"قال ابن المنذر: أجمعوا على أن المسلف إذا شرط على المستسلف زیادة أو ھدیة  فأسلف على ذلك إن أخذ الزیادة علی ذلك ربا".

(اعلاء السنن، کتاب الحوالة، باب کل قرض جرّ منفعة،ص: 513 ، ج: 14، ط: إدارۃ القرآن)

 

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144509102093

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں