بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بیرون ملک تجارت کی غرض سے جانے کے بارے میں چند سوالات


سوال

1۔ ایک شخص بیرون ملک جاتاہے، ویزہ بھی نہیں لیتا، غیر قانونی طریقہ سے جاتا ہے، اس کے بھائی، بیوی اور اولاد سب منع کرتے ہیں لیکن وہ یہ بہانہ بناتا ہے کہ مجھے پاکستان میں صحیح روزگار نہیں مل رہا، جبکہ بلا ویزہ جانے میں جانی خطرہ بھی ہے، سوال یہ ہے کہ یہ شخص مذکورہ صورتِ حال میں بیرون ملک جاسکتا ہے؟ 

2۔ بعض لوگ بیرون ملک تجارت کے لیے جانے میں اس سے استدلال کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے بھی مکہ سے شام تجارت کی غرض سے ہجرت کی، ان کا یہ قیاس درست ہے؟

3۔ بعض حضرات سکونتِ مکان کو ”سنت “ کی جگہ بدلنے  پر قیاس کرتے ہیں، کہ حضور ﷺ فرض نماز ایک ادا فرماتے اور سنتیں دوسری جگہ، کیا یہ استدلال درست ہے؟ 

جواب

1۔ واضح رہے کہ ویزہ کے بغیر بیرون ملک سفر کرنا   قانوناً، شرعاً اور اخلاقاً کسی بھی طرح درست نہیں ہے، اس میں بذاتِ خود اپنے آپ کو مشکلات اور مصیبتوں کی طرف دھکیلنا پایا جاتا ہے، جس کی بناء پر کسی شخص کی جان نہیں تو کم از کم عزتِ نفس ضرور مجروح ہوتی ہے، لہذا ایسے عمل سے مکمل اجتناب ضروری ہے جو تذلیل کا باعث بنے۔ 

  باقی جہاں تک بات  گھر والوں کی اجازت نہ دینے کی ہے، تو اگر اجازت نہ دینے کی وجہ اس کا بغیر ویزہ کے سفر کرنے سے جان کو خطرہ ہے، تو پھر گھر والے اور والدین کی اجازت کے بغیر سفر کرنا شرعاً ممنوع ہے، اور اگر اجازت نہ دینے کی وجہ  روز مرہ کا خرچہ دیے بغیر سفر پر چلے جانا ہے، اور ان کے بیوی بچے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے بھی پریشان رہتے ہیں، تو ایسی صورت میں تو ان کا گھر والوں کو بے یار و مددگار چھوڑ کر جانا جائز ہی نہیں ہے۔

البتہ اگر   مذکورہ شخص واقعتاً معاشی مسائل سے دو چار ہو اور تلاسِ بسیار کے باوجود اپنے ملک میں معاشی وسائل حاصل نہ ہوتے ہوں، تو کسی بھی ملک میں، چاہے وہ غیر مسلم ملک ہی کیوں نہ ہو، احکامِ اسلام کی پابندی كرتے ہوئے اور منکرات سے اپنے کو بچاتے ہوئے ملازمت اختیار کرنا، تجارت کرنا اور وہاں رہائش اختیار کرنا درست ہے،  لیکن اس کے لیے غیر قانونی راستہ اختیار کرنا اپنے آپ کو ذلت کے  خطرے میں ڈالنا اور قانون کی خلاف ورزی کرنا ہے،  اس لیے اس سے اجتناب ضروری ہے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

"هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولاً، فَامْشُوا فِي مَناكِبِها وَكُلُوا مِنْ رِزْقِهِ، وَإِلَيْهِ النُّشُورُ" (سورۃ الملک 15)

”وہی ہے جس نے کیا تمہارے آگے زمین کو پست کردیا اب چلو پھرو اس کے کندھوں پر اور کھاؤ کچھ اس کی دی ہوئی روزی اور اسی کی طرف جی اٹھنا ہے“۔ (بیان القرآن)

تاہم  اگر کسی شخص کو اپنے ملک اور شہر میں اس قدر معاشی وسائل حاصل ہیں، جس کے ذریعہ وہ اپنے شہر کے لوگوں کے حساب سے تو متوسط زندگی گزار سکتا ہے،  لیکن صرف معیارِ زندگی کو بلند کرنے،خوشحالی اور عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کی غرض سے کسی غیر مسلم ملک کی طرف ہجرت کرتا ہے، تو یہ  کراہت سے خالی نہیں ہے؛ کیوں کہ یہ دینی یا دنیاوی ضروریات کے بغیر اپنے آپ کو وہاں رائج شده فواحش و منکرات کے طوفان میں ڈالنے کے مترادف ہے، اور بلا ضرورت اپنی دینی اور اخلاقی حالت کو خطرہ میں ڈالنے سے  دینی حمیت کمزور ہو جاتی ہے،  چنانچہ ایسے لوگ کا فرانہ محرکات کے سامنے تیزرفتاری سے پگھل جاتے ہیں،  اسی وجہ سے حدیث شریف میں شدید ضرورت اور تقاضے کے بغیر مشرکین کے ساتھ رہائش اختیار کرنے کی ممانعت آئی ہے۔

چنانچہ ابو داؤد ميں ہے:

"عن سمرة بن جندب: أما بعد، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من جامع المشرك وسكن معه فإنه مثله."

(کتاب الجهاد، باب في الإقامة بأرض الشرك، 413/4، ط: دار الرسالة العالمية) 

"حضور ﷺ نے فرمایا جو شخص مشرک کے ساتھ موافقت کرے اور اس کے ساتھ رہائش اختیار کرے وہ اسی کے مثل ہے۔ "

ايك اور روایت میں ہے:

"حدثنا هناد بن السري، حدثنا أبو معاوية، عن إسماعيل، عن قيس عن جرير بن عبد الله، قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم سرية إلى خثعم، فاعتصم ناس منهم بالسجود، فأسرع فيهم القتل، قال: فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فأمر لهم بنصف العقل وقال: "أنا بريء من كل مسلم يقيم بين أظهر المشركين" قالوا: يا رسول الله، لم؟ قال: " لا تراءى ناراهما".

(سنن ابي داؤد، كتاب الجهاد، باب النهي عن قتل من اعتصم بالسجود، 280/4، ط: دار الرسالة العالمية)

”حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نےقبیلہ خثعم کی طرف ایک سریہ روانہ فرمایا، ان میں سے بعض لوگوں نے اپنا اسلام ثابت کرنے کے لیے سجدہ کے ذریعہ پناہ چاہی( یعی نماز کی طرح سجدہ کرنے لگے)، لیکن سریہ نے ان کی طرف التفات نہیں کیا اور تیزی سے قتال کرتے چلے گئے،  جب حضور ﷺ کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو آپ نے ان مقتولین کے لئے، یعنی ان کے ورثاء کے لئے قاتلین پر نصف دیت کا فیصلہ فرمایا، اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ میں ایسے مسلمان سے بری ہوں  جو باوجود مسلمان ہونے کے مشرکین کے درمیان اقامت گزیں ہو،  صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا یا رسول الله ! اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا۔ ”اسلام کی آگ اور کفر کی آگ دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتی۔“

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ سخت مجبوری کی حالت میں تو غیر مسلم ممالک میں جہاں عریانی و فحاشی اور بے حیائی عام ہے، وہاں  کمانے کی غرض سے جانے کی اجازت ہے، لیکن محض زندگیکا معیار بلند کرنے اور  خوش حالی کے لیے وہاں مستقل رہائش اختیار کرنا اور وہاں کی ”شہریت اور نیشنلٹی“ اختیار کرنا، دینی و اخلاقی اعتبار سے اپنے اور اپنی نسل کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔

2۔  حضور ﷺ نے تجارت کی غرض سے صرف شام نہیں بلکہ یمن اور بحرین کا بھی سفر فرمایا ہے، مستدرك حاكم ميں ہے:

"عن جابر رضي الله عنه، قال: «‌استأجرت ‌خديجة رضوان الله عليها رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌سفرتين ‌إلى ‌جرش كل سفرة بقلوص."

(‌‌كتاب معرفة الصحابة، ‌‌ومنهم خديجة بنت خويلد، ج:3، ص:200، ط: دار الكتب العلمية)

”حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے حضور ﷺ کو دو بار تجارت کے لیے اونٹنیوں کے عوض بھیجا“۔

ان روایات سے بیرون ملک تجارت کی غرض سے جانے کا جواز تو ضرور معلوم ہوتا ہے، لیکن یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ حضور ﷺ  نے حضرت خدیجہ کے مال کی حفاظت اور بڑھوتری کی غرض سے سفر کیا، ورنہ نبوت ملنے کے بعد کوئی تجارتی سفر مذکور نہیں، وجہ اس کی یہ تھی کہ بقدرِ کفاف گزارا ہوجاتا تھا، معیارِ زندگی کو بڑھانے کی فکر حضور ﷺ میں کبھی نہیں رہی ہے۔

3۔ یہ استدلال بالکل غلط ہے، قیاس مع الفارق ہے۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"وأما الاستضاءة بنار المشركين، فمعناه: لا تقاربوهم في المنازل بحيث تكونون معهم في بلادهم، بل تباعدوا منهم وهاجروا من بلادهم؛ ولهذا روى أبو داود [رحمه الله] "لا تتراءى ناراهما" وفي الحديث الآخر: "من جامع المشرك أو سكن معه، فهو مثله."

(آل عمران، آية:118، 108/2، ط: دار طيبة)

معالم السنن میں ہے:

"وقوله لا ترايا ناراهما فيه وجوه أحدها معناه لا يستوي حكماهما قاله بعض أهل العلم. وقال بعضهم معناه أن الله قد فرق بين داري الإسلام والكفر فلا يجوز لمسلم أن يساكن الكفار في بلادهم حتى إذا أوقدوا ناراً كان منهم بحيث يراها.وفيه دلالة على كراهة دخول المسلم دار الحرب للتجارة والمقام فيها أكثر من مدة أربعة أيام."

(كتاب الجهاد، ‌‌ومن باب على ما يقاتل المشركون،271/2، ط: المطبعة العلمية-حلب)

المعجم الاوسط للطبرانی میں ہے:

"عن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌ليس ‌للمسلم ‌أن ‌يذل ‌نفسه» ، قالوا: يا رسول الله، وكيف يذل نفسه؟ قال: يعرض من البلاء لما لا يطيق."

(باب المیم، ‌‌باب من اسمه محمود، ج:8، ص:41، ط: دار الحرمین-قاھرۃ)

المحیط البرہانی میں ہے:

"ولو أراد أن يخرح من بلدة إلى بلدة للتجارة أو للتفقه، وكان الطريق آمناً لا يخاف عليه الهلاك، فله أن يخرج من غير إذنهما قياساً واستحساناً."

(‌‌كتاب الاستحسان والكراهية، ‌‌الفصل الثامن والعشرون في الرجل يخرج إلى السفر، ج:5، ص:387، ط: دار الکتب العلمية)

وفیه أیضاً:

"إن كان السفر سفراً لا يخاف على الولد الهلاك فيه كان له أن يخرج بغير إذنهما؛ لأن القياس أن يخرج في الجهاد بغير إذنهما لقوله تعالى: {اقتلوا المشركين} (النساء: 66) ولقوله تعالى: {قاتلوا الذين لا يؤمنون بالله ولا باليوم الآخر} (التوبة: 29) إلا أنا تركنا القياس في الجهاد بالنص، والنص الوارد في الجهاد بخلاف القياس، وفيه تفجيعهما وإلحاق المشقة بهما، لأجل ما يخافان الهلاك على ولدهما في الجهاد يعتبر وارداً دلالة في سفر لا يخافان الهلاك عليه، فيرد هذا إلى ما يقتضيه القياس، ولأن الخروج للتجارة خروج للتكسب، ولا بد للولد من التكسب لإصلاح معيشته، فإنه متى ترك ذلك ربما يحوجه ذلك إلى ما فيه مذلة، وهو السؤال من غيره من الناس، أو يلقيه في المهالك بأن يوقعه في السرقة، ألا ترى أن له الخروج إلى ضيعته للزراعة، وإلى سوقه للتجارة وإن لم يأذنا فيه كذا ههنا.

 وإن كان سفراً يخاف عليه الهلاك، فإنه لا يخرج إلا بإذنهما؛ لأنه إذا كان سفراً يخاف عليه الهلاك كان بمنزلة الجهاد، ولا يخرج في الجهاد إلا بإذنهما، فكذلك هذا،وكذا الجواب فيما إذا خرج للتفقه إلى بلدة أخرى إن كان لا يخاف عليه الهلاك بسبب هذا الخروج كان بمنزلة السفر للتجارة، وإن كان يخاف عليه الهلاك كان بمنزلة الجهاد."

(‌‌كتاب الاستحسان والكراهية، ‌‌الفصل الثامن والعشرون في الرجل يخرج إلى السفر، ج:5، ص:392، ط: دار الکتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وقال محمد - رحمه الله تعالى - في السير الكبير إذا أراد الرجل أن يسافر إلى غير الجهاد لتجارة أو حج أو عمرة وكره ذلك أبواه فإن كان يخاف الضيعة عليهما بأن كانا معسرين ونفقتهما عليه وماله لا يفي بالزاد والراحلة ونفقتهما فإنه لا يخرج بغير إذنهما سواء كان سفرا يخاف على الولد الهلاك فيه كركوب السفينة في البحر أو دخول البادية ماشيا في البرد أو الحر الشديدين أو لا يخاف على الولد الهلاك فيه وإن كان لا يخاف الضيعة عليهما بأن كانا موسرين ولم تكن نفقتهما عليه إن كان سفرا لا يخاف على الولد الهلاك فيه كان له أن يخرج بغير إذنهما وإن كان سفرا يخاف على الولد الهلاك فيه لا يخرج إلا بإذنهما كذا في الذخيرة.

 وكذا الجواب فيما إذا خرج للتفقه إلى بلدة أخرى إن كان لا يخاف عليه الهلاك بسبب هذا الخروج كان بمنزلة السفر للتجارة وإن كان يخاف عليه الهلاك كان بمنزلة الجهاد."

(كتاب الكراهية، الباب السادس والعشرون في الرجل يخرج إلى السفر ويمنعه أبواه أو أحدهما، ج:5، ص:365، ط: دار الفكر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144603102224

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں