میں اپنے گھر کا ذمہ دار سرپرست ہوں، میری عمر تقریباً 72 سال ہے، میں کوئی کام وغیرہ نہیں کرتا، میرے بیٹے مجھے ماہانہ خرچہ دیتے ہیں، بڑے بیٹے نے تقریباً ایک سال پہلے ایک لاکھ روپے مجھے دیے اور کہا کہ میرے لیے آدھا تولہ سونا خریدیں، وہ رقم میں نے لے لی، لیکن سونا ابھی تک خریدا نہیں تھا کہ میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ یہ رقم مجھے دےدو، گھر میں کچھ بجلی کا کام کرانا ہے ، بیٹے نے اس رقم سے کام کرانے کی اجازت نہ دی اور نہ ہی صاف انکار کیا، میں نے وہ رقم استعمال کرلی، ایک ماہ بعد بیٹے نے مجھ سے سونے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ میرا آدھا تولہ سونا دو، میں نے کہا کہ اگر آپ اس وقت منع کردیتے تو میں یہ رقم استعمال نہیں کرتا، بیٹے نے کہا میں نے آپ کو اجازت نہیں دی تھی، اب آپ مجھے سونا دو۔
سوال یہ ہے کہ اب مجھے آدھا تولہ سونا واپس کرنا ہے یا ایک لاکھ روپے؟
صورتِ مسئولہ میں بیٹے نے رقم والد صاحب کو دے کر سونا خریدنےکا وکیل بنایا تھا، بیٹے کی صریح اجازت کے بغیر والد کا وہ رقم کسی اور استعمال میں لانا درست نہیں تھا، لہذ اجب والد نے بیٹے کی اجازت کے بغیر اس رقم سے گھر میں تعمیراتی کام کرایا، اور سونا نہیں خریدا تو وکالت باطل ہوگئی، اب والد پر لازم ہے کہ بیٹے کو ایک لاکھ روپے واپس کرے، آدھا تولہ سونا خرید کر لوٹانا لازم نہیں، بلکہ بیٹے کی رقم لوٹانا ضروری ہے۔
درر الحکام میں ہے:
"المال الذي في يد الوكيل بالشراء - وهذا المال أيضا إما أن يكون ثمنا أو مشترى. وكلاهما أمانة أيضا فلو أعطى أحد عشرة دنانير لآخر لشراء فرس له، فتكون العشرة الدنانير أمانة في يد الوكيل ولا يلزم ضمان بتلفه بلا تعد ولا تقصير. لكن تبطل الوكالة بتلف ذلك المبلغ؛ لأن النقود في الوكالة تتعين في التعيين سواء أعطيت النقود للوكيل أو لم تعط."
(الكتاب الحادي عشر الوكالة، المادة 1463: المال الذي قبضه الوكيل بالبيع والشراء وإيفاء الدين واستيفائه، 561/3، ط: دار الجیل)
وفیه أیضاً:
"ثامنا - ينعزل الوكيل بالشراء بتلف نقد الموكل التي في يده."
(المادة 1524: إذا عزل الوكيل نفسه، 644/3، ط: دار الجیل)
تبیین الحقائق میں ہے:
"وإنما قيد بالاستهلاك دون الهلاك لأن بطلان الوكالة بالاستهلاك لا بالهلاك ذكره قاضي خان في فتاواه اهـ ما كتبه بخطه وقال في الهداية ما نصه ألا ترى أنه لو قيد الوكالة بالعين منها أو بالدين منها ثم استهلك أو أسقط الدين بطلت الوكالة اهـ قال الأتقاني قال بعض الشارحين إنما قيد بالاستهلاك دون الهلاك لأن بطلان الوكالة مخصوص بالاستهلاك دون الهلاك وهذا الذي ذكره مخالف لما ذكروا في شروح الجامع الصغير في هذا الموضوع حيث قالوا لو هلكت الدراهم المسلمة إلى الوكيل بالشراء بطلت الوكالة،
فأقول كأن المصنف قيد بالاستهلاك حتى لا يتوهم متوهم أن الوكالة لا تبطل إذا استهلك الوكيل الدراهم المسلمة إليه لأنه يضمن الدراهم فيقوم مثلها مقامها فيصير كأن عينها باقية فقال بالاستهلاك تبطل الوكالة كما في الهلاك لتعين تلك الدراهم كما في هلاك المبيع قبل التسليم. "
(كتاب الوكالة، باب الوكالة بالبيع والشراء، 267/4، ط: دار الکتاب الاسلامی)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144604101004
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن