ایک بیٹا شادی کے بعد اپنے والد صاحب کو چھوڑ کر دوسرے شہر میں شفٹ ہو گیا، (20)( 25) سال تک خود رہا، اتنے عرصے میں بیٹے نے والد صاحب کو کچھ بھی خرچہ نہیں دیا، اب وہ باپ کو کہتا ہے کہ مجھے اپنی جائیداد میں سے کچھ حصہ دو، تو والد صاحب کا کہنا ہے کہ اتنا عرصہ تو نے مجھے کوئی خرچہ نہیں دیا، اگر تجھے میری جائیداد میں سے کچھ حصہ چاہیے تو مجھے بھی اپنے گھر میں سے جو تو نے بنایا ہے کچھ حصہ دے ،کیا شرعاً یہ معاملہ درست ہے؟
واضح رہے کہ والدین کا خرچہ اولاد پر اس وقت لازم ہوتاہے کہ جب والدین اپنا خرچہ نہ اٹھاسکتے ہوں، تنگ دست ہو ں اور مالی اعتبار سے کمزور ہوں، لیکن اگر والدین کا ذریعہ معاش ہو اور وہ اپنا خرچہ خود اٹھاسکتے ہوں تو اس صورت میں ان کا نفقہ اولاد پر لازم نہیں ہوتاہے، لیکن نفقہ واجبہ کے علاوہ اگر بیٹے اپنی طرف سے بطورِ احسان کے خرچ کرناچاہے تو یہ ان کی اپنی اپنی صواب دید پر موقوف ہے اور اس خرچ کرنے پر ان کو دوہرا اجر ملےگا۔
نیزیہ بات بھی واضح رہے کہ والد کی زندگی میں اولاد کا ان کی جائیداد میں کوئی مالکانہ حق اورحصہ نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی کو اس کی جائیداد میں مطالبہ کا حق حاصل ہوتاہے، تاہم اگر جائیدادکامالک اپنی زندگی میں اپنی جائیداد خوشی ا وررضا مندی سے اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اور اپنی زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی جائے وہ میراث نہیں ہوتی، بلکہ وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے اور اولاد کو ہبہ کرنے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ سب کے درمیان برابری ،مساوات اور انصاف کا پہلو اختیار کرے ،البتہ دین داری ،خدمت گزاری یا تنگ دست ہونے کی بنیاد پر کسی بچے/بچی کو کچھ زیادہ حصہ دینا چاہیں تو اس کی گنجائش ہے۔
لہٰذا صورت مسئولہ میں بیٹے کو باپ کی حیات میں ان کی جائیداد میں اپنا حصہ مانگنے کا حق حاصل نہیں ہے،نیز چوں کہ والد پر زندگی میں جائیداد کی تقسیم لازم نہیں ،لہٰذابیٹے کو اپنی جائیداد ہبہ(گفٹ) کرنے کے عوض اس کی جائیداد کا مطالبہ کرنا جائز ہے۔
نیز بیٹے کو چاہیے کے والد کی بقیہ زندگی ان کی خدمت میں گزارے اور ان کی رضا حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے،کیوں کہ رب کی رضا باپ کی رضا میں ہے ،اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔
سنن ترمذی میں ہے:
"عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:رضى الرب في رضى الوالد، وسخط الرب في سخط الوالد."
(أبواب البر والصلة،باب ما جاء من الفضل في رضا الوالدين،ج:4،ص:310،ط:مطبعة مصطفى البابي الحلبي)
ترجمہ:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے."
وفیه ایضاً:
"قال أبو الدرداء: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:الوالد أوسط أبواب الجنة، فإن شئت فأضع ذلك الباب أو احفظه."
(أبواب البر والصلة،باب ما جاء من الفضل في رضا الوالدين،ج:4،ص:311،ط:مطبعة مصطفى البابي الحلبي)
ترجمہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے، اگر تم چاہو تو اس دروازہ کو ضائع کر دو اور چاہو تو اس کی حفاظت کرو ۔"
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"عن ابن عباس قال: قال رسول الله ﷺ: من أصبح مطیعاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن کان واحداً فواحداً، ومن أصبح عاصیاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من النار، إن کان واحداً فواحداً، قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه. رواه البیهقي في شعب الإیمان".
( کتاب الآداب،باب البر والصلة،الفصل الثالث:ج:3،ص:1382،ط:المکتب الإسلامي)
ترجمہ:" حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا مطیع و فرماں بردار ہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو (اور وہ اس کا مطیع ہو) تو ایک دروازہ کھول دیا جاتاہے۔ اور جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو تو اس کے لیے صبح کے وقت جہنم کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کسی ایک کا نافرمان ہو تو ایک دروازہ جہنم کا کھول دیا جاتاہے۔ ایک شخص نے سوال کیا: اگرچہ والدین ظلم کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں۔"
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے :
"كل يتصرف في ملكه المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير. انظر المادة (1197)۔"
(کتااب الثانی الاجارۃ،ج:3،ص:201،ط:دار الجلیل)
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) تجب (على موسر) ولو صغيرا (يسار الفطرة) على الأرجح... (النفقة لأصوله)... (الفقراء) ولو قادرين على الكسب.
وفي الرد: قوله الفقراء) قيد به؛ لأنه لا تجب نفقة الموسر إلا الزوجة (قوله ولو قادرين على الكسب) جزم به في الهداية، فالمعتبر في إيجاب نفقة الوالدين مجرد الفقر."
(كتاب الطلاق،باب النفقة،ج:3،ص:621۔623،ط:سعید)
وفيه ايضاّ:
"وفي الخانیة: لا بأس بتفضیل بعض الأولاد في المحبة، لأنھا عمل القلب، وکذا فی العطایا إن لم یقصد به الإضرار، وإن قصد فسوی بینھم یعطي الإبن کالبنت عند الثانی وعلیه الفتویٰ."
(کتاب الھبۃ،ج:5،ص:696،ط:سعيد)
وفيه ايضاّ:
’’(والعين العوض) بشرط أن يذكر لفظا يعلم الواهب أنه عوض كل هبته۔
قوله: والعين العوض) وهب لرجل عبدا بشرط أن يعوضه ثوبا إن تقاضيا جاز، وإلا لا خانية (قوله: سقط الرجوع) أي رجوع الواهب والمعوض كما في الأنقروي وإليه يشير مفهوم الشارح سائحاني‘‘
(كتاب الهبة،باب الرجوع في الهبة،ج:5،ص:701،ط:سعيد)
البحر الرائق میں ہے:
"(قوله: و لأبويه وأجداده وجداته لو فقراء) أي تجب النفقة لهؤلاء... وشرط الفقر؛ لأنه لو كان ذا مال فإيجاب النفقة في ماله أولى من إيجابها في مال غيره... وأطلق في الابن ولم يقيده بالغنى مع أنه مقيد به لما في شرح الطحاوي ولا يجبر الابن على نفقة أبويه المعسرين إذا كان معسرا."
(كتاب الطلاق،باب النفقة،نفقة الأبوين والأجداد والجدات،ج:4،ص:349،348،ط:دارالكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512101784
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن