ہمارے والد صاحب نے ایک مکان بنایا،ہم والدین ،تین بھائی اور چار بہنیں ہیں،میں نے اس کے بعداپنی ذاتی محنت سے اس کے علاوہ اپنا ذاتی مکان بنوایا، ایک میرا ذاتی ہوٹل بھی ہے،جب کہ والد صاحب نے پچیس سال پہلے ہی کام چھوڑ دیا تھا،میرے بڑے بھائی عالم ہیں،وہ پہلے کرایہ کے گھر میں رہتے تھے،لیکن جب میں نے الگ گھر بنایاتوہم سب اس میں شفٹ ہوگئےاور بھائی کو کہا کہ جو والد صاحب کا گھر ہے آپ اس میں رہیں،اب کسی بات پر لڑاائی جھگڑا ہوا ہے تو ہم نے کہا جائیداد تقسیم کرتے ہیں،میں اپنی ذاتی جائیداد میں سے بھی حصہ اپنی خوشی سے دینا چاہ رہا تھا،لیکن وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ سب جائیداد والد صاحب کی ہے اور اس کو تقسیم کریں زندگی میں، آیا صرف والد صاحب کا گھر تقسیم ہوگا یا میری جائیداد بھی تقسیم ہوگی زندگی میں؟والد صاحب حیات ہیں اور تقسیم پر راضی ہیں۔
صورتِ مسئولہ میں اگر سائل نے والد صاحب کے کاروبار کے علاوہ کسی الگ کام سے اپنا مکان اور ہوٹل بنایا ہے تو سائل اپنی ذاتی جائیدادکاخود مالک ہے،یہ جائیداد والد کی شمار نہیں ہوگی ،ایسی صورت میں سائل کے بڑے بھائی کویہ حق نہیں کہ وہ سائل پردباؤ ڈالے کہ وہ اپنی جائیداد والد کی جائیداد کے ساتھ تقسیم کرے، بلکہ ہرشخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا خود مالک ومختار ہوتا ہے، وہ ہر جائز تصرف اس میں کرسکتا ہے، اور اگر سائل نے والد صاحب ہی کے کاروبار پر محنت کرکے یہ مکان اور ہوٹل بنا یا ہے تو یہ بھی والد کی ملکیت شمار ہوگا ،اگر والد صاحب اپنی زندگی میں تقسیم کرنا چاہیں گے تو یہ مکان اور ہوٹل بھی تقسیم میں شامل ہوگا ۔
نیزیہ بات بھی واضح رہے کہ والد کی زندگی میں اولاد کا ان کی جائیداد میں کوئی مالکانہ حق اورحصہ نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی کو اس کی جائیداد میں مطالبہ کا حق حاصل ہوتاہے، تاہم اگر جائیدادکامالک اپنی زندگی میں اپنی جائیداد خوشی ا وررضا مندی سے اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اور اپنی زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی جائے وہ میراث نہیں ہوتی، بلکہ وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے اور اولاد کو ہبہ کرنے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ سب کے درمیان برابری ،مساوات اور انصاف کا پہلو اختیار کرے ۔
البتہ کسی بیٹے یا بیٹی کو کسی معقول شرعی وجہ کی بنا پر دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دینا چاہے تو دےسکتا ہے، یعنی کسی کی دین داری یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر اس کو دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی اجازت ہے، لیکن بعض کو دینا اور بعض کو محروم رکھنا یا کسی معقول وجہ کےبغیر کم زیادہ دینا شرعاً سخت گناہ ہے، اس سے بچنا لازم ہے۔
لہذا اگر سائل کے والد صاحب اپنی خوشی سے زندگی میں اپنی جائیداد تقسیم کرناچاہتے ہیں تو اس کا شرعی طریقہ یہ ہے :سب سے پہلے اپنے لئے بقدر ضرورت رکھ لے ،تاکہ ضرورت کے وقت کسی کامحتاج نہ ہوناپڑے،اس کے بعد اپنی شریک حیات (بیوی) کوکم ازکم آٹھواں حصہ دیدے،اس کےبعد اپنی تمام اولادکوبرابری اورمساوات کی بنیادپردیدے،یعنی جتناحصہ اپنے ایک بیٹے کودے اتنا حصہ اپنے دوسرے ہر ایک بیٹے اورہرایک بیٹی کودے ، ہرایک کواس کے حصہ پرمالکانہ قبضہ اورتصرف دیدے،کسی معقول وجہ کے بغیر کمی بیشی نہ کرے،رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا ۔
وفي درر الحكام في شرح مجلة الأحكام :
"كل يتصرف في ملكه المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير. انظر المادة (1197)۔"
(کتااب الثانی الاجارۃ3/ 201/دار الجلیل)
وفی الدر المختار وحاشية ابن عابدين :
"أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه - صلى الله عليه وسلم - قال «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرا أحدا لآثرت النساء على الرجال» رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم» فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى۔"
(مطلب فی المصادفۃ علی النظر/4/ 444/ط:سعید)
وفي الدر المختار:
"اعلم أن أسباب الملك ثلاثة: ناقل كبيع و هبة و خلافة كإرث و أصالة ..."
(کتاب الصید/6/ 463/ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144304100477
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن