بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بیٹے کے لیے سبحان یا محمد نام کی منت ماننا


سوال

ہمارے گھر 7 سال بعد بیٹا پیدا ہوا،میری بیوی نے دوران عمرہ منت مانگی اگر بیٹا پیدا ہوا ،تو نام سبحان ہوگا،جب کہ میں نے منت مانگی تھی ،بیٹا پیدا ہوا تو نام محمد ہوگا،اب گھر والے بول رہے ہے، اکیلا محمد نام مت رکھو،معاشرے میں نام لے کر کوئی برا بھلا کہے گا تو بے ادبی ہوگی اور سبحان صرف اللہ کی ذات ہے، یہ نام بھی مت رکھو،اس سلسلے میں رہنمائی درکار ہے۔

جواب

واضح رہے کہ منت  لازم ہونے کی چند شرائط ہیں، جن کا پایا جانا شرعا  ضروری ہے:

١)  منت اللہ رب العزت کے نام کی مانی جائے ، پس غیر اللہ کے نام کی منت صحیح نہیں۔

٢)  منت صرف عبادت کے کام کے لیے ہو  ، پس جو کام عبادت نہیں، اس کی منت بھی صحیح نہیں۔

٣) عبادت ایسی ہو  کہ اس طرح کی عبادت کبھی فرض یا واجب ہوتی ہو، جیسے : نماز ،روزہ ،حج ،قربانی وغیرہ ، پس ایسی عبادت کہ جس کی جنس کبھی فرض یا واجب نہیں ہوتی ہو اس کی منت بھی صحیح نہیں ۔

صورتِ مسئولہ میں آپ اور آپ کی بیوی نے جو "محمد یا سبحان"  نام  رکھنے  کی منت مانی تھی، اس میں دوسری اور تیسری شرط نہیں پائی جارہی، لہٰذا یہ منت  شرعا منعقد نہیں ہوئی، پس آپ  اپنے بیٹے کا نام رکھنے کے سلسلہ میں آزاد ہیں،البتہ اکیلےسبحان یا محمدسبحان نام رکھنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ سبحان‘‘  کے معنی  کسی کو تمام عیوب اور نقائص سے پاک ٹھہرانا یا بتانا ہے،سبحان، اللہ تعالیٰ کے لائقِ شان ہے، اللہ کی ذات کے علاوہ کسی اور  کے بارے میں  ’’سبحان‘‘  نہیں کہا جاسکتا؛ لہٰذالڑکے کا نام  "سبحان یا محمد سبحان" رکھنا درست نہیں ہے،تاہم عبدالسبحان نام رکھا جاسکتا ہے  باقی محمد نام رکھنا نہ صرف جائز بلکہ باعث برکت بھی ہے "محمد" نام اس وجہ سے ترک نہ کریں کہ لوگ بے ادبی کریں گے،محمد نام بھی رکھا جاسکتا ہے،محمد کے ساتھ کوئی اور نام بھی ملا کر رکھا جاسکتا ہے، مذکورہ دونوں ناموں کو ملاکر محمد عبدالسبحان  بھی نام رکھ سکتے ہیں  اس کے علاوہ صحابہ یا بزرگوں کے نام میں سے کسی بھی نام کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔

تفسیر القرطبی میں ہے:

"(سبحان) " سبحان" اسم موضوع موضع المصدر، وهو غير متمكن، لأنه لا يجري بوجوه الإعراب، ولا تدخل عليه الألف واللام، ولم يجر منه فعل، ولم ينصرف لأن في آخره زائدتين، تقول: سبحت تسبيحا وسبحانا، مثل كفرت اليمين تكفيرا وكفرانا. ومعناه التنزيه والبراءة لله عز وجل من كل نقص. فهو ذكر عظيم لله تعالى لا يصلح لغيره، فأما قول الشاعر:أقول لما جاءني فخره … سبحان من علقمة الفاخر.

فإنما ذكره على طريق النادر. وقد روى طلحة بن عبيد الله الفياض أحد العشرة أنه قال للنبي صلى الله عليه وسلم: ما معنى سبحان الله؟ فقال:" تنزيه الله من كل سوء". والعامل فيه على مذهب سيبويه الفعل الذي من معناه لا من لفظه، إذ لم يجر من لفظه فعل، وذلك مثل قعد القرفصاء، واشتمل الصماء «3»، فالتقدير عنده: أنزه الله تنزيها، فوقع" سبحان الله" مكان قولك تنزيها."

(الإسراء، ج: 10، ص: 204، ط: دار الكتب المصرية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وأما ركن اليمين بالله) فذكر اسم الله، أو صفته."

(كتاب الأيمان، الباب الأول في تفسير الأيمان شرعا وركنها وشرطها وحكمها، 51/2، ط: دار الفكر بيروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) أن يكون قربة مقصودة، فلا يصح النذر بعيادة المرضى وتشييع الجنائز والوضوء والاغتسال ودخول المسجد ومس المصحف والأذان وبناء الرباطات والمساجد وغير ذلك وإن كانت قربا؛ لأنها ليست بقرب مقصودة ويصح النذر بالصلاة والصوم والحج والعمرة والإحرام بهما والعتق والبدنة والهدي والاعتكاف ونحو ذلك؛ لأنها قرب مقصودة."

(كتاب النذر، بيان ركن النذر وشرائطه، 82/5، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511102718

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں