کسی کا بچہ بچپن میں بہت زیادہ بیمار ہوا ہواور اس نےمنت مان لی کہ اگر میرے بچے کو صحت ملے تو میں اس کوعالم بناؤں گی مگر بڑا ہونے کے بعداب وہ لڑکا عالم نہیں بننا چاہتا،اس صورت میں اس منت کی تلافی کیسے ممکن ہے؟واضح رہے کہ اس لڑکےکے اور بھی بہن بھائی ہیں۔
نذر کے منعقد ہونے کی منجملہ شرائط میں سے ہے کہ نذر عبادت کی ہو، اور وہ عبادت مقصودہ ہو، اور اس طرح کی عبادت کبھی فرض یا واجب ہوتی ہو، جیسے : نماز ،روزہ ،حج ،قربانی وغیرہ ، پس ایسی عبادت کہ جس کی جنس کبھی فرض یا واجب نہیں ہوتی ہو یا وہ عبادت تو ہو لیکن عبادت مقصودہ نہ ہو تو اس کی نذر بھی صحیح نہیں، لہذاصورتِ مسئولہ میں آپ نے اپنے بیٹے کو عالم بنانے کی جو نذر مانی تھی تو چوں کہ بیٹے کو عالم بنانا فرض یا واجب نہیں ہے، اس لیے شرعاً یہ نذر لازم نہیں ہوئی، اوراگر آپ اپنے بیٹے کو عالم نہیں بناسکیں تو گناہ گار نہیں ہوں گے۔
لیکن بہرحال یہ اللہ تعالی سے ایک وعدہ ہے، اس لیے حتی الامکان اس کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اگر کسی وجہ سے بیٹے کے لیے عالم بنناممکن نہ ہو تو کم از کم اسے دین کی بنیادی تعلیم سے ضرور آراستہ کرادینا چاہیے،تاکہ دین کی کچھ سمجھ بوجھ حاصل ہوجائے۔
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"(وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (طلب العلم) أي: الشرعي (فريضة) أي: مفروض فرض عين (على كل مسلم) : أو كفاية والتاء للمبالغة أي ومسلمة كما في رواية.
قال الشراح: المراد بالعلم ما لا مندوحة للعبد من تعلمه كمعرفة الصانع والعلم بوحدانيته ونبوة رسوله وكيفية الصلاة، فإن تعلمه فرض عين، وأما بلوغ رتبة الاجتهاد والفتيا ففرض كفاية. قال السيد: ويمكن أن يعم العلم ويحمل الكلام على المبالغة اهـ. وفيه تأمل."
(کتاب العلم،ج:1،ص:301،رقم الحدیث:218،ط:دار الفكر، بيروت لبنان)
فتاوی شامی میں ہے:
"ولو نذر التسبيحات دبر الصلاة لم يلزمه، ولو نذر أن يصلي على النبي - صلى الله عليه وسلم - كل يوم كذا لزمه وقيل لا
)قوله: ولو نذر التسبيحات) لعل مراده التسبيح والتحميد والتكبير ثلاثًا وثلاثين في كل وأطلق على الجميع تسبيحًا تغليبًا لكونه سابقًا وفيه إشارة إلى أنه ليس من جنسها واجب، ولا فرض وفيه أن تكبير التشريق واجب على المفتى به وكذا تكبيرة الإحرام، وتكبيرات العيدين فينبغي صحة النذر به بناء على أن المراد بالواجب هو المصطلح ط.
قلت: لكن ما ذكره الشارح ليس عبارة القنية وعبارتها كما في البحر، ولو نذر أن يقول دعاء كذا في دبر كل صلاة عشر مرات لم يصح (قوله لم يلزمه) وكذا لو نذر قراءة القرآن وعلله القهستاني في باب الاعتكاف بأنها للصلاة وفي الخانية ولو قال: علي الطواف بالبيت والسعي بين الصفا والمروة أو علي أن أقرأ القرآن إن فعلت كذا لا يلزمه شيء. اهـ.
قلت: وهو مشكل فإن القراءة عبادة مقصودة ومن جنسها واجب، وكذا الطواف فإنه عبادة مقصودة أيضًا ثم رأيت في لباب المناسك قال في باب أنواع الأطوفة: الخامس طواف النذر وهو واجب ولايختص بوقت فهذا صريح في صحة النذر به (قوله: لزمه) لأن من جنسه فرضا وهو الصلاة عليه صلى الله عليه وسلم مرةً واحدةً في العمر وتجب كلما ذكر وإنما هي فرض عملي قال ح: ومنه يعلم أنه لايشترط كون الفرض قطعيا ط (قوله: وقيل: لا) لعل وجهه اشتراطه كونه في الفرض قطعيًا ح."
(كتاب الأيمان،ج:3،ص:738۔ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512101057
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن