بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹیوں کا والد کی قبر پر جانا


سوال

میرے والد محترم انتقال کرگئے،  تقریباً ایک  سال سے اوپر ہوگیا ہے،  میری بہنیں قبرستان جانے کو بول رہی ہیں، اس شرط کے  ساتھ  کہ مکمل پردے میں،  اور  وہاں جاکر قبر کی زیارت کرنا ہے ، ان کا مقصد غم کو تازہ کرنا نہیں ہے اور نہ ہی رونا دھونا ہے،  صرف اور صرف 5  منٹ کے  لیے  والد محترم کی قبر کی زیارت کرنا چاہتی  ہیں تو  آپ کی طرف سے اجازت ہے ؟

جواب

عورتوں  کے قبرستان میں جانے سے اگر غم تازہ ہو اور وہ بلند آواز سے روئیں تو ان کے لیے  قبرستان جانا  گناہ ہے؛ کیوں کہ حدیث میں ایسی عورتوں پر لعنت آئی ہے جو  قبرستان جائیں؛  تاکہ غم تازہ ہو ۔  چوں کہ ان میں صبر کم ہوتا ہے، اس لیے گھر ہی سے ایصال ثواب کرنا چاہیے۔ نیز عورتوں کے لیے جب مساجد میں جماعت سے نماز کے لیے جانا مکروہِ تحریمی ہے تو  قبرستان کی زیارت کے لیے گھر سے نکلنے  میں بدرجہ اولیٰ کراہت ہوگی، کیوں کہ یہ ضرورتِ شرعیہ نہیں ہے،  جس کی بنا پر ان کے لیے خروج کو  بلاکراہت جائز قرار دیا جاسکے۔

"عن ابن عباس، قال: ’’لعن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم زائرات القبور، والمتخذین علیها المساجد والسرج.‘‘

(سنن أبي داؤد، ۳/۲۱۸، أخرجه الترمذي، ۲/۳۶ (۳۲۰) وقال: حدیث حسن)

ترجمہ: ’’حضرت عبد اللہ بن عباسr فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبروں پر جانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے اور ان لوگوں پر بھی لعنت فرمائی ہے جو قبروں کو سجدہ گاہ بنائیں اور وہاں چراغ رکھیں۔‘‘

اسی حدیث کے پیشِ نظر عورتوں کے قبروں پر جانے کے بارے میں اکثر اہلِ علم حضرات کی رائے یہ ہے کہ یہ ناجائز ہے، کیوں کہ عورتیں ایک تو شرعی مسائل سے کم واقف ہوتی ہیں، دوسرے ان میں صبر، حوصلہ اور برداشت کم ہوتا ہے، ان کے حق میں غالب اندیشہ یہی ہے کہ وہ قبرستان جاکر جزع وفزع کریں گی یا کوئی بدعت کریں گی، اسی لیے انہیں قبرستان جانے سے منع کردیاگیا ۔

البتہ اگر کوئی بوڑھی عورت عبرت اور تذکرہ آخرت کے لیے قبرستان جائے تو اس شرط کے ساتھ اجازت ہے کہ وہ جزع فزع نہ کرے، اور جوان عورت کے لیے  جانے میں بہر حال  کراہت ہے، خواہ وہ جزع و فزع نہ کرے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 210):
"(قوله: وقيل: تحرم على النساء إلخ) قال الرملي: أما النساء إذا أردن زيارة القبور إن كان ذلك لتجديد الحزن والبكاء والندب على ما جرت به عادتهن فلاتجوز لهن الزيارة، وعليه حمل الحديث: «لعن الله زائرات القبور»، وإن كان للاعتبار والترحم والتبرك بزيارة قبور الصالحين فلا بأس إذا كن عجائز، ويكره إذا كن شواب، كحضور الجماعة في المساجد".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201902

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں