بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹیوں کے صرف جائیداد نام کرنے کا حکم


سوال

ایک عورت شادی شدہ ہے، 30 سال پہلے ناراض ہو کر میکے چلی گئی تھی،اور شوہر اس کو نفقہ بھی نہیں دے رہا تھا،  البتہ طلاق نہیں ہوئی تھی، اب اس عورت کا انتقال ہوچکا ہے۔ عورت نے اپنی جائیداد اپنی چار بیٹیوں کے نام کردی تھی اور ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ کر کے نہیں دیا اور نہ ہی قبضہ دیا تھا بلکہ وہ جائیداد اصل شوہر ہی کے قبضے میں ہے۔ باقی ہبہ کرتے وقت تمام بیٹیاں شادی شدہ تھیں ،آیا یہ جائیداد صرف ان  بیٹیوں کی ہے یا پھر شوہر کا بھی شرعی حصہ ہے اور اس میں وراثت جاری ہوگی؟

جواب

صورت مسئولہ میں چونکہ مذکورہ عورت نے اپنی جائیداد صرف اپنی بیٹیوں کے نام کی تھی ،کسی کا حصہ متعین نہیں کیا تھا اورنہ ہی  قبضہ  دیا تھا تو مذکورہ جائیداد مذکورہ عورت کی ملکیت میں ہی برقرار تھی اورانتقال کے بعد اس کا ترکہ ہونے کے سبب اس  کے تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم ہوگی،مذکورہ عورت کو طلاق نہیں ہوئی تھی  ،اس لیے شوہر کا بھی ترکہ میں   ایک چوتھائی حصہ ہوگا،باقی ورثاء کی مکمل تفصیل بتا کر ہر ایک کا شرعی حصہ معلوم کیاجاسکتاہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) حكمها (أنها لا تبطل بالشروط الفاسدة) فهبة عبد على أن يعتقه تصح ويبطل الشرط لأن اللام للتمليك بخلاف جعلته ‌باسمك فإنه ليس بهبة۔"

(کتاب الھبہ،5/ 688،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100425

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں