ہمارے والد صاحب کا ایک سال پہلے انتقال ہوا ہے۔ورثاء میں 5 بیٹے اور 4 بیٹیاں ہیں۔والدین اور بیوی کا انتقال والد صاحب کی حیات میں ہوچکا تھا۔
ترکہ کی تقسیم کے حوالہ سے کچھ سوالات درپیش ہیں،جن کی تفصیل یہ ہے کہ والد صاحب نے اپنی حیات میں تین بیٹوں کو رہائش کے لیے الگ الگ مکانات دیے تھے،جو گفٹ نہیں تھے۔پھر والد صاحب کی رضامندی سے ان بیٹوں نے یہ مکانات بیچ دیےاور بیچ کر حاصل ہونے والی رقم کے ساتھ اپنی ذاتی رقم ملا کر دوسرے مکانات خریدے،جن کی مالیت اب مزید بڑھ چکی ہے۔اور کوئی رقم والد صاحب کو واپس نہیں کی گئی ۔جو رقم مکانات بیچ کر حاصل ہوئی اور اس کو ملا کر دوسرے مکانات خریدے ،وہ بھی گفٹ نہیں تھی۔
1۔اب اس سلسلے میں دریافت یہ کرنا ہے کہ ان مکانات کی موجودہ مالیت میں تمام ورثاء حق دار ہوں گے؟یا صرف سابقہ مکانات کو بیچ کر حاصل ہونے والی رقم میں شریک ہوں گے؟
2۔انہی بیٹوں میں سے ایک بیٹا والد صاحب کا کاروبار سنبھال رہا ہے،پہلے والد صاحب خود چلاتے تھے،پھر بیمار ہوگئے تو بیٹا سنبھالنے لگا۔سارا کاروبار والد صاحب کا ہے،اس کاروبار میں اس بیٹۓکی اپنی رقم شامل نہیں ہے۔اب یہ کاروبار اس بیٹے کا شمار ہوگا؟یااس بیٹے کا دیگر ورثاء کی طرح اس کاروبار میں حصہ ہوگا؟اسی طرح والد صاحب کی دیگر جائے دادیں بھی ہیں،ان ساری جائے دادوں میں مذکورہ ورثاء(بیٹے،بیٹیوں) کا شرعی اعتبار سےکتنا حصہ ہوگا؟
نوٹ:بیٹوں نےاپنے مکانات خریدنے تھے اور ان کے پاس اپنی رقم موجود تھی، لیکن کچھ کم تھی تو والد نے اپنی رقم(جو مکانات بیچ کر حاصل ہوئی تھی)کے بارےمیں کہا کہ یہ بھی استعمال کرلو، کسی بھی قسم کا کوئی معاہدہ (قرض یا شرکت وغیرہ کا)نہیں ہوا تھا۔
1۔صورتِ مسئولہ میں مذکورہ تینوں بیٹوں نے اپنی رقم کے ساتھ والد صاحب کی رقم شامل کرکے جو مکانات اپنے لیے خریدے تھے،وہ انہی کی ملکیت شمار ہوں گےکہ اب والد کے انتقال کے بعد ان مکانات میں مرحوم کے دیگر ورثاء کا کوئی حق نہیں ہوگا،تاہم مذکورہ بیٹوں نے ان مکانات کی خریداری میں والد کی جو رقم استعمال کی ہے وہ ان کےذمہ قرض شمار ہوگی کہ جس کی ادائیگی ان پر لازم ہے۔لہذااب ان بیٹوں پر لازم ہے کہ اتنی رقم والد کے ترکہ میں شامل کریں ،اس کے بعد ترکہ کو تقسیم کیا جائےیا پھر تقسیمِ ترکہ کے وقت اتنی رقم ان کے حصوں سے منہا کی جائے۔
2۔جو کاروبار والد کا تھااور والد صاحب خود اسے سنبھالتے تھے،پھر والد کے بیمار ہونے کے باعث ایک بیٹامذکورہ کاروبار سنبھالنے لگا تو اب والد کے انتقال کے بعد وہ کاروباروالد کا ترکہ شمار ہوگااور سب ورثاء میں مشترک ہوگاکہ اس میں مذکورہ بیٹا(جو کاروبار سنبھال رہا ہے)اورمرحوم کےدیگر ورثاء بھی اپنے اپنےشرعی حصص کے مطابق شریک ہوں گے۔اسی طرح مرحوم کی ملکیت میں جتنی جائے دادیں تھیں،وہ سب بھی تمام شرعی ورثاء میں مشترک ہیں،ہر ایک وارث اپنے شرعی حصے کے بقدر شریک ہے۔
باقی مرحوم والد کے ترکہ کو تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلےترکہ میں سے ان کے تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالے جائیں،پھر مرحوم کے ذمہ اگرکوئی قرض ہوتو اس کو ادا کیا جائے،پھر اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس کو بقیہ ترکہ کےایک تہائی میں سے نافذ کیا جائے،اس کے بعد باقی ترکہ کو14 حصوں میں تقسیم کرکے 2،2 حصے مرحوم کےہر ایک بیٹے کو اورایک ایک حصہ مرحوم کی ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔
تقسیم کی صورت یہ ہے:
میت:مرحوم والد:14
بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
2 | 2 | 2 | 2 | 2 | 1 | 1 | 1 | 1 |
یعنی فی صد کے اعتبار سے 14.285فیصد مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو اور 7.142فی صد مرحوم کی ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔
درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"لو أعطى أحد لآخر نقودا قائلا له: اصرف هذه على مصارفك أو حوائجك أو على الغزاة ولم يذكر بأن ذلك قرض أو هبة وقبض المذكور ذلك فلا يكون هبة بل يكون قرضا لأن هذا اللفظ محتمل القرض والهبة وبما أن القرض أدنى من الهبة فالأولى حمله على القرض."
(الکتاب العاشر الشرکات، خاتمة في حق أحكام القرض والدين، ج:3، ص:82، ط:دار الجيل)
فتاوی شامی میں ہے:
"الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله."
(كتاب الشركة، فصل في الشركة الفاسدة، ج:4، ص:325، ط:سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606101756
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن