بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بیٹوں کی موجودگی میں پوتوں کا وراثت میں حصہ دار ہونے کا دعوی کرنا


سوال

میں نے دو شادیاں کر رکھی ہیں ، جن میں سے پہلی بیوی کا انتقال ہو چکا ہے ان سے کل اولاد کی تعداد 8  تھی،  جن میں سے چار بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں ، بیٹوں میں سے تین کا انتقال ہو چکا ہے، تین وفات شدہ بیٹوں میں سے دو بال بچوں والے تھے ، ان کے بچے ابھی سب کے سب بالغ ہیں چاہے بیٹے ہوں یا بیٹیاں سب بالغ ہیں، اور میر اچو تھا بیٹا ابھی زندہ ہے ۔ دوسری بیوی زندہ ہے اور ان سے ایک بیٹا  ہے ۔

میرے پوتے سب کے سب بالغ ہو چکے ہیں،اپنا کماتے اور کھاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ لوگوں سے یہ کہتے پھرتے ہیں کہ دادا کا سارا مال ان کے انتقال کے بعد ہمارا ہے، تو کیا میرے مال یا جائیداد میں شرعا ان کا کوئی حق ہے ؟ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل جب تک بقیدِ حیات ہیں، تب تک  سائل کے مال و جائیداد میں کسی کا  کوئی حق  نہیں، بلکہ  سارے مال و جائیداد کے سائل ہی تن تنہا خود  مالک ہیں،  اس میں ہر طرح کا جائز تصرف کر سکتے ہیں،  تاہم سائل کے انتقال کے بعد سارا مال ترکہ میں شمار ہوکر آپ کے ورثاء میں تقسیم ہوگا، نیز انتقال  کے وقت اگر ورثاء میں  بیٹے  موجود ہوں، تو پوتوں کو کوئی حصہ نہیں ملتا، لہذ اپوتوں کا یہ دعوی کرنا کہ دادا کے انتقال کے بعد  سارا مال ہمارا ہے، تو یہ بالکل غلط اور ناجائز ہے۔نیز اگر پوتوں سے خطرہ ہے کہ شرعی حق داروں کو محروم کریں گے تو آپ  زندگی میں بیوی،بیٹوں کو حصہ مع قبضہ دے سکتے ہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وأما حجب الحرمان فنقول: ستة لا يحجبون أصلا، الأب والابن والزوج والأم والبنت والزوجة ومن عدا هؤلاء فالأقرب يحجب الأبعد كالابن ‌يحجب ‌أولاد ‌الابن والأخ لأبوين يحجب الإخوة لأب ومن يدلي بشخص لا يرث معه إلا أولاد الأم."

( كتاب الفرائض، الباب الرابع في الحجب، 452/6، ط: دار الفکر)

البحر الرائق میں ہے:

"قال رحمه الله (ويحجب بالابن) أي ولد ‌الابن يحجب بالابن ذكورهم وإناثهم فيه سواء؛ ‌لأن ‌الابن ‌أقرب ‌وهم ‌عصبة ‌فلا ‌يرثون ‌معه ‌بالعصوبة."

(کتاب الفرائض، انواع الحجب، 563/8، ط: دار الکتاب الاسلامی)

درر الحکام میں ہے:

"‌كل ‌يتصرف ‌في ‌ملكه كيفما شاء. لكن إذا تعلق حق الغير به فيمنع المالك من تصرفه على وجه الاستقلال."

(الكتاب العاشر ، الباب الثالث، الفصل الأول في بيان بعض القواعد المتعلقة بأحكام الأملاك، المادة:1192، 201/3، ط:دار الجيل)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144604100399

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں