بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 ذو الحجة 1445ھ 03 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیت الخلاء منہدم کرکے اس کی جگہ مصلی بنانا


سوال

ہمارے ہاں صدر کی ایک مارکیٹ میں ایک جگہ پر دو طرف    پندرہ بیس بیت الخلاء ایک ساتھ بنے ہوئے ہیں،  ان میں سے ایک طرف کے بیت الخلاؤں کی چھت کافی عرصے پہلے گرگئی تھی،  بعد میں سمجھیں کہ وہ پورا منہدم ہوگیا،پھراس کے بعد ان کا استعمال بھی  نہیں ہوا،اس بات کو بھی تقریباً پانچ چھ سال سے اوپر ہوگئے ہیں، مارکیٹ کے قریب مسجد ہے، لیکن مارکیٹ سے نکل کر مسجدجانے میں لوگ سستی کرتے ہیں ، تومارکیٹ والوں نےیہ فیصلہ کیا  ہے کہ جگہ ویسے ہی خالی پڑی ہوئی ہے،اس کو صفائی کراکر اور زمین پلین(plain) کرکےنماز کے لیے مصلی بنادیا جائے، یہ بات بھی رکھ دی ہے کہ  اس میں اذان نہیں ہوگی، جو بھی جس وقت بھی آکر جماعت  کراناچاہے  کراسکتا ہے، خواہ وہ دیوبندی ، بریلوی کسی بھی مسلک سے ہو،یہ مارکیٹ چوں کہ کے ایم سی کی ہے تو اس لیے یہ بات بھی ہوئی ہے کہ کے ایم سی اگر کسی وقت مصلی بنانے سے منع کرتی ہےکہ یہا ں مصلی نہیں بنانا، تووہ اس کا اختیار رکھتی ہے کہ اسے ختم کرادے، کمیٹی کے بڑے اس جگہ مصلی بنانے پر  تو رضامند ہیں ، لیکن وہ کہہ رہے ہیں  کہ اس بارے میں پوچھ لیاجائےکہ اس جگہ چوں کہ پہلے بیت الخلاء تھےاوراب ہم اس پر ایک مقدّس عمل/نماز کے لیےمصلی    بناکر اس  کو نماز کے لیے استعمال کرناچاہ رہے ہیں تو  کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟ کہیں ہم اس پر کہیں گناہ کے مرتکب نہ ہوجائیں ،اس بارے میں ہماری شرعی راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ  ناپاک زمین کواگر   خوب اچھی طرح سےصاف کردیاجائے  کہ اس پر نجاست وغیرہ  کا کوئی اثر موجود نہ رہے تووہ پاک جاتی ہے اور اس پر نمازپڑھنا درست ہوتا ہے ، لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ جگہ پر موجود بیت الخلاؤں کو منہدم کرنے کے بعد زمین کو اچھی طرح صاف کردیاجائے تو  ایسی صورت میں اس پر نماز پڑھنا اور نماز کے لیے مصلی بنانا درست ہے۔

الدر المختار میں ہے:

"(و) تطهر (أرض) بخلاف نحو بساط (‌بيبسها) أي: جفافها ولو بريح (وذهاب أثرها كلون) وريح (ل) أجل (صلاة) عليها (لا لتيمّم) بها؛ لأن المشروط لها الطهارة وله الطهوريّة".

(الدر المختار، كتاب الطهارة، باب الأنجاس، ج:1،ص:311،ط:سعيد)

الفتاوی الہندیہ میں ہے:

   "الأرض أو الشجر إذا أصابته النجاسة فأصابه المطر ولم يبق لها أثر يصير طاهراً، وكذا الخشب إذا أصابته النجاسة فأصابه المطر كان ذلك بمنزلة الغسل.  الأرض إذا تنجّست ببول واحتاج الناس إلى غسلها فإن كانت رخوة يصب الماء عليها ثلاثاً فتطهر، وإن كانت صلبةً قالوا: يصبّ الماء عليها وتدلك ثم تنشف بصوف أو خرقة يفعل كذلك ثلاث مرات فتطهر، وإن صب عليها ماء كثير حتى تفرّقت النجاسة ولم يبق ريحها ولا لونها وتركت حتّى جفّت تطهر كذا في فتاوى قاضي خان" .

(الفتاوى الهندية، كتاب الطهارة، الباب السابع، الفصل الأوّل في تطهير الأنجاس، ج:1،ص:43،ط:دار الفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144306100815

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں