گورنمنٹ کی جانب سے پلاٹ کے حوالے سے ایک اسکیم آئی تھی، جس پر میرے والد صاحب نے سب گھر والوں کے نام پر فارم جمع کروائے، جب اس کی قرعہ اندازی ہوئی تو اس میں صرف میرے نام پر ایک پلاٹ نکلا، باقی گھر والوں میں سے کسی کا نام قرعہ میں نہیں نکلا، چنانچہ اس پلاٹ کے تمام کاغذات میرے نام پر ہیں اور اس کی قسطیں والد صاحب مجھے جمع کروانے کے لیے کہتے، کبھی والد صاحب کہتے کہ اپنے اکاؤنٹ سے رقم لے کر جمع کرا دو اور کبھی خود رقم لیتے تھے، اور یہ اکاؤنٹ میرا اور میرے والد صاحب کا مشترکہ اکاؤنٹ تھا۔ پلاٹ کی تمام قسطوں کی ادائیگی کے بعد اس کی فائل مجھے دے دی تھی، جو کہ مکمل قبضہ کے ڈاکومنٹ کروائے تھے، جس پر اس کا آخری پیپر میرے نام پر بنا اور اسی پر میری تصویر بھی موجود ہے اور پھر مجھے اس کا الاٹمنٹ آرڈر بھی ہوا جو کہ والد صاحب کی اجازت اوران کی مرضی سے ہوا تھا۔ نیز والد مرحوم مجھے اکثر کہا کرتے تھے کہ بیٹا! آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، میں نے آپ کے بچوں کی شادی کے لیے انتظام کردیا۔ نیز میں کاروبار میں والد صاحب کا ہاتھ بٹاتا تھا اور والد صاحب کی غیر موجودگی میں میں ہی کاروبار سنبھالتا تھا۔
تو مذکورہ صورت میں شریعت کی رو سے یہ پلاٹ میرے پاس بطورِ شرکت ہوگی یا پلاٹ مکمل طور پر میری ملکیت ہوگا؟
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً قرعہ اندازی میں مذکورہ پلاٹ سائل کے نام نکلا ہو اور اس پلاٹ کی تمام کاغذی کاروائی اور ا الاٹمنٹ آرڈر بھی سائل کے نام جاری ہوا ہو، اور وہ پلاٹ مکمل قبضہ اور تمام مالکانہ حقوق و تصرفات کے ساتھ سائل کے حوالہ کیا گیا ہو، تو ایسی صورت میں شرعًا مکمل پلاٹ سائل کی ملکیت ہوگا، اس میں کسی اور کا کوئی حق یا حصّہ نہیں ہوگا۔
باقی اس پلاٹ کی قسطوں کی ادائیگی میں سائل کے والد مرحوم نے اپنی جانب سے یا اپنے اور بیٹے (سائل) کے درمیان مشترک اکاؤنٹ سے جو رقم ادا کی ہے وہ سوال میں موجود اس تصریح سے کہ ”بیٹا! آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، میں نے آپ کے بچوں کی شادی کے لیے انتظام کردیا۔“ والد کی جانب سے بیٹے (سائل) پر تبرع اور احسان شمار ہوگا، اس اداشدہ رقم کے مطالبہ کا کسی کو حق نہیں ہوگا۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(قوله حكم الإقطاعات إلخ) قال أبو يوسف - رحمه الله تعالى - في كتاب الخراج، وللإمام أن يقطع كل موات وكل ما ليس فيه ملك لأحد، ويعمل بما يرى أنه خير للمسلمين، وأعم نفعا..... قال أبو يوسف: وذلك بمنزلة بيت المال الذي لم يكن لأحد، ولا في يد وارث فللإمام العادل أن يجيز منه ويعطي من كان له عناء في الإسلام، ويضع ذلك موضعه، ولا يحابي به فكذلك هذه الأرض، فهذا سبيل القطائع عندي في أرض العراق، وإنما صارت القطائع يؤخذ منها العشر لأنها بمنزلة الصدقة. اهـ. قلت: وهذا صريح في أن القطائع قد تكون من الموات، وقد تكون من بيت المال لمن هو من مصارفه، وأنه يملك رقبة الأرض، ولذا قال يؤخذ منها العشر، لأنها بمنزلة الصدقة ..... فهذا يدل على أن للإمام أن يعطي الأرض من بيت المال، على وجه التمليك لرقبتها كما يعطي المال، حيث رأى المصلحة إذ لا فرق بين الأرض والمال في الدفع للمستحق."
(كتاب الجهاد، مطلب في أحكام الإقطاع من بيت المال، ج:4، ص:194، ط:ايج ايم سعيد)
بدائع الصنائع میں ہے:
"أما أصل الحكم فهو ثبوت الملك للموهوب له في الموهوب من غير عوض لأن الهبة تمليك العين من غير عوض فكان حكمها ملك الموهوب من غير عوض."
(كتاب الهبة، فصل في حكم الهبة، ج:6، ص:128، ط:ایج ایم سعید)
العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:
"المتبرع لايرجع بما تبرع به على غيره، كما لو قضى دين غيره بغير أمره."
(کتاب المداینات، ج:2، ص:226، ط:دار المعرفۃ بیروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144608100994
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن