بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا مہر کا مطالبہ کرنا


سوال

 میری شادی کو ایک سال ہو گیا ہے اور پچھلے چھ مہینے سے اب میری بیوی بنا کسی وجہ کے میرا گھر چھوڑ کے میکے چلی گئی ہے (اگر چہ میں اپنی بیوی کی ساری ضرورتیں بھی پوری کرتا تھا اوراس کے علاوہ ہر ماہ میں کچھ پیسے نقد بھی دیتا تھا لیکن وہ پھر بھی چھوڑ کے چلی گئی، حالانکہ اللہ گواہ ہے کہ میں نے اپنی بیوی کی ایسی ایسی باتیں بھی برداشت کی ہیں جو کہ اگر کوئی اور ہوتا تو نہ کرتا لیکن اللہ کی خوشنودی اور اپنی عزت کی خاطر سب کچھ برداشت کرنا پڑا )۔ میں نے خود بھی اپنی بیوی کو سمجھانے کی بہت کوشش کی اور تین دفعہ میرے گھر کے بڑے بھی لانے کے لیے گئے ہیں،  لیکن وہ واپس آنے کے لیے تیار نہیں،  پہلےمطالبہ کر رہی تھی کہ آپ ادھرآکے رہو یا جہاں آپ رہتے ہو مجھے بھی اپنے پاس رکھو لیکن میری ڈیوٹی کی نوعیت ایسی ہے کہ جس میں پورا پورا مہینہ نائٹ ڈیوٹی بھی کرنی ہوتی ہے اور اسی صورت میں میری بیوی کو وہاں اکیلے گھر پہ رہنا پڑے گا جو کہ میں نہیں چاہتا۔ حالانکہ میں ہرجمعے کو گھر آجاتا ہوں اور دو دن گھرپہ گزارتا ہوں۔   میرے گھر میں بوڑھے ماں باپ ہیں جن کا خرچہ اور اپنے چھوٹے بھائی کی تعلیم کا خرچہ میں اٹھا رہا ہوں ،میری بیوی کو اس سے بھی مسئلہ تھا ۔ باربار سمجھانے کےبعد بھی جب بات نہ بنی تو اب میں نے اپنی بیوی سے فون پہ بھی رابطہ کر نا چھوڑ دیا ہے۔ وہ جاتے وقت مہر کا آدھے سے زیادہ حصہ ساتھ لے کے گئی ہے اور جو مہر وہ چھوڑ کے گئی ہے اب وہ اس کا مطالبہ کر رہی ہے کہ یہ میرا حق ہے اور میں وہ دینے کےلئے تیار ہوں لیکن وہ ساتھ میں یہ بھی کہہ رہی ہے کہ میں نے نہیں آنا واپس  ، تو کیا ایسی صورت میں اپنی بیوی کو حقِ مہر دینا مجھ پر فرض ہے یا نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  بیوی کا باقی مہر کا مطالبہ شرعاً درست ہے اور شوہر پر لازم ہے کہ بیوی کو اس کا باقی ماندہ  مہر عند الطلب ہے توادا کرے  باقی سائل  حکمت اور تدبر کے ساتھ  اپنی بیوی کو سمجھاتا رہے کہ گھر بھی نہ ٹوٹے اور  بیوی بھی  راضی ہوجائے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"والمهر يتأكد بأحد معان ثلاثة: الدخول، والخلوة الصحيحة، وموت أحد الزوجين سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط منه شيء بعد ذلك إلا بالإبراء من صاحب الحق، كذا في البدائع."

(کتاب النکاح، الباب السابع فی المھر،  الفصل الثاني فيما يتأكد به المهر والمتعة، ج:1، ص:303، ط:دار الفکر بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله ويتأكد) أي الواجب من العشرة لو الأكثر وأفاد أن المهر وجب بنفس العقد لكن مع احتمال سقوطه بردتها أو تقبيلها ابنه أو تنصفه بطلاقها قبل الدخول، وإنما يتأكد لزوم تمامه بالوطء ونحوه ظهر أن ما في الدرر من أن قوله عند وطء متعلق بالوجوب غير مسلم كما أفاده في الشرنبلالية: قال في البدائع: وإذا تأكد المهر بما ذكر لا يسقط بعد ذلك، وإن كانت الفرقة من قبلها لأن البدل بعد تأكده لا يحتمل السقوط إلا بالإبراء كالثمن إذا تأكد بقبض المبيع. اهـ. (قوله صحت) احتراز عن الخلوة الفاسدة كما سيأتي بيانها (قوله على الزوج) متعلق بقوله وطء أو خلوة على التنازع لا بقوله صحت حتى يرد أن شروط الصحة ليست من جانبه فقط فافهم.(قوله أو تزوج ثانيا) هذا مؤكد رابع زاده في البحر بحثا بقوله: وينبغي أن لا يزاد رابع، وهو وجوب العدة عليها منه فيما لو طلقها بائنا بعد الدخول، ثم تزوجها في العدة وجب كمال المهر الثاني بدون الخلوة والدخول لأن وجوب العدة عليها فوق الخلوة اهـ وأقره في النهر وفيه بحث فإنه يمكن إدخاله فيما قبله، وهو الوطء لما سيأتي في باب العدة من أنه في هذه الصورة يجب عليه مهر تام، وعليها عدة مبتدأة لأنها مقبوضة في يده بالوطء الأول لبقاء أثره وهو العدة، وهذه إحدى المسائل العشرة المبينة على أن الدخول في النكاح الأول دخول في الثاني (قوله أو إزالة بكارتها إلخ) هذا مؤكد خامس زاده في البحر أيضا حيث قال: وينبغي أن يزاد خامس، وهو ما لو أزال بكارتها بحجر ونحوه فإن لها كمال المهر كما صرحوا به بخلاف ما إذا أزالها بدفعه فإنه يجب النصف لو طلقها قبل الدخول ولو دفعها أجنبي فزالت بكارتها وطلقت قبل الدخول وجب نصف المسمى على الزوج، وعلى الأجنبي نصف صداق مثلها."

(کتاب النکاح، باب المھر، ج:3، ص:103، ط:ایچ ایم سعید کمپنی)

وفیہ ایضاً:

قال في النهر: ولم نجد في كلامهم ذكر المؤنسة إلا في فتاوى قارئ الهداية قال إنها لا تجب إلخ (قوله ومفاده إلخ) عبارة البحر: هكذا قالوا للزوج أن يسكنها حيث أحب ولكن بين جيران صالحين؛ ولو قالت إنه يضربني ويؤذيني فمره أن يسكنني بين قوم صالحين؛ فإن علم القاضي ذلك زجره ومنعه عن التعدي في حقها وإلا يسأل الجيران عن صنيعه، فإن صدقوها منعه عن التعدي في حقها، ولا يتركها ثمة وإن لم يكن في جوارها من يوثق به أو كانوا يميلون إلى الزوج أمره بإسكانها بين قوم صالحين. اهـ ولم يصرحوا بأنه يضرب وإنما قالوا زجره ولعله؛ لأنها لم تطلب تعزيره وإنما طلبت الإسكان بين قوم صالحين، وقد علم من كلامهم أن البيت الذي ليس له جيران ليس بمسكن شرعي. اهـ (قوله لكن نظر فيه الشرنبلالي إلخ) أي نظر في كلام النهر وأجيب عنه بحمله على ما إذا رضيت بذلك ولم تطالبه بمسكن له جيران. فالحاصل أن الإفتاء بلزوم المؤنسة وعدمه يختلف باختلاف المساكن ولو مع وجود الجيران، فإن كان صغيرا كمساكن الربوع والحيشان فلا يلزم لعدم الاستيحاش بقرب الجيران، وإن كان كبيرا كالدار الخالية من السكان المرتفعة الجدران يلزم لا سيما إن خشيت على عقلها كما أفاده السيد محمد أبو السعود في حواشي مسكين، وهو كلام وجيه؛ لأن ما في السراجية من عدم اللزوم مشروط بشرطين: إسكانها بين جيران صالحين، وعدم الاستيحاش، فإذا أسكنها في دار وكان يخرج ليلا ليبيت عند ضرتها ونحوه وليس لها ولد أو خادم تستأنس به أو لم يكن عندها من يدفع عنها إذا خشيت من اللصوص أو ذوي الفساد كان من المضارة المنهي عنها ولا سيما إذا كانت صغيرة السن فيلزمه إتيانها بمؤنسة أو إسكانها في بيت من دار عند من لا يؤذيها إن كان مسكنا يليق بحالهما، والله سبحانه أعلم."

(باب النفقة، مطلب في الكلام على المؤنسة، ج:3، ص:602، ط:ایچ ایم سعید کمپنی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510101778

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں